محض ایک سال سے کم عرصے میں عام پاکستانی اپنی دو وقت کی روٹی کے لئے 46فیصد سے زیادہ مہنگائی کا عذاب سہہ رہا ہے تو حکمران اس سے یہ کیسے توقع کر رہے ہیں کہ وہ انہیں ووٹ دے گا۔ عمران خان یہ توقع کیسے کر رہے ہیں کہ اپنی تمامتر غیر معمولی مقبولیت کے باوجود پاکستان کے موجودہ پاور اسٹرکچر کو پیچھے دھکیل کر وہ الیکشن بروقت کرانے اور اقتدار میں آنے کے خواب کی تعبیر پا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ایک بات سمجھنے کی ہے جو بآسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ اس وقت موجودہ اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ (ن) اور جے یو ایف(ف)جس تیز رفتاری سے اپنا سیاسی اثاثہ کھو رہی ہیں اس کی بنیادی وجہ مہنگائی کا وہ طوفان ہے جس نے عام پاکستانی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے آپ کہیں گے پیپلز پارٹی اس زمرے میں کیوں نہیں آتی اس کی وجہ انتخابی طریقہ کار سندھ دیہی کا حلقہ انتخاب‘ وہاں پر فیوڈلز اور بااثر لوگوں کا غیر معمولی اثرورسوخ کم خواندگی کی شرح اور مختلف نقطہ نظر سے پیپلز پارٹی کے مضبوطی سے گڑھے ہوئے پنجے‘ انتظامی کنٹرول اور ساتھ ساتھ بھٹو اور بے نظیر کا نام‘ پھر سب سے بڑھ کر دیہی سندھ میں نوجوان ہوں‘ خواتین ہوں یا بڑی عمر کے لوگ۔ ان کے لئے عمران کی شخصیت کا کوئی جادو معنی نہیں رکھتا۔ بھٹو فیکٹر آج بھی موجود ہے پھر آصف علی زرداری نے بڑی چابکدستی سے دیہی سندھ کے سیاسی میدان میں اپنی گرفت کو ہر زاویہ نگاہ سے مضبوط رکھا ہے۔ سوال یہ ہو سکتا ہے کہ اپنی بے شمار شخصی کمزوریوں اور پونے چار سال کی حکومت میں کوئی قابل ذکر کارکردگی نہ دکھانے کے باوجود عمران خان اتنے مقبول کیسے ہیں؟ تو آپ ذرا پیچھے چلیں ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کا کیا راز تھا؟ وہ ایوب خان کے دور میں وزیر خارجہ تھے لیکن ایوب خان سے الگ ہوئے ۔ روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا ۔غریب کی محرومیوں کا بار بار تذکرہ کرنے گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے اور عام آدمی کی عزت نفس کو اجاگر کرنے کے عزم کے اعادے نے انہیں ایک بڑا لیڈر بنا دیا تھا۔ سندھی ہونے کے باوجود بھٹو کا 1970ء کے انتخابات میں پاور بیس سندھ نہیں پنجاب تھا۔یہ محرومیوں کا ردعمل تھا۔بھٹو کو عوام سے متعارف ہونے کے لئے محنت نہیں کرنی پڑی تھی وہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے اپنی صلاحیتیں منوا چکے تھے۔بھٹو نے 1973ء کی آئین کی تیاری‘ اسلامی سربراہی کانفرنس کا لاہور میں انعقاد‘ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز جیسے کارنامے شامل تھے۔لیکن سندھ میں اردو بولنے والے بھٹو کے دور حکومت میں یہ سمجھتے تھے کہ بھٹو نے کوٹہ سسٹم کے ذریعے ملازمتوں اور پروفیشنل کالجز میں داخلوں کے حوالے سے ان کے مفادات کو کمپرومائز کیا ہے۔یہ احساس محرومی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی سندھ کے شہری علاقوں میں اکثریت میں رہنے والے اردو اسپیکنگ جنہیں حرف عام میں مہاجر کہا جاتا ہے۔احساس محرومی کا بتدریج احساس محرومی کا شکار ہوتے چلے گئے۔یہ اسی احساس محرومی کا نتیجہ تھا جس کے سبب مہاجر قومی موومنٹ بنی اور الطاف حسین کو وہ پذیرائی حاصل ہوئی ۔2013ء کے انتخابات میں عمران خان کے مداحوں کے علاوہ پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو الطاف حسین اور ان کی پارٹی کی کارکردگی پر خوش نہ تھے۔ایک ایسی پارٹی جیسے جیسے وہ انس کی تمامتر خوبیوں اور خامیوں کے باوجود سپورٹ کرتے رہے تھے۔2018ء کے انتخابات میں پوری رُت بدل گئی۔ 2018ء کے انتخابات میں عمران خان اور ان کی جماعت کو جتنے ووٹ پڑے وہ بھی ایک ردعمل کے طور پر تھے۔لوگ اپنے مسائل سے نکلنے کے لئے کسی نئے آپشن کی تلاش میں تھے عمران تبدیلی کی بات کر رہے تھے پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ نے کھل کر عمران کی مدد کی۔جب عمران کی آزمائش کا وقت آیا اور انہیں حکومت مل گئی تو انہوں نے جتنے وعدے کئے تھے جو سہانے خواب دکھائے تھے۔گھروں اور ملازمتوں کی جو امید دلائی تھی مہنگائی کم کرنے کے جو دعوے کئے تھے اسے وہ پورا نہ کر سکے اوروہ محض ڈیڑھ سال ہی میں غیر مقبول ہوتے نظر آئے ۔ پھر نہ جانے اس وقت کی اپوزیشن پر کیا کم بختی آئی کہ عمران کے خلاف جوڑ توڑ کر کے عدم اعتماد کی تحریک لے آ ئی۔نوجوان تواس عمران خان کو جانتے تھے جو 50سے انہیں اسکرین پر نظر آ رہا ہے وہ کرکٹر تھا تو ایک دیو مالائی کردار کی حیثیت سے کرکٹ کے میدان میں چمک رہا تھا وہ سوشل ریفارمز بنا تو شوکت خانم ہسپتال جیسا بڑا پروجیکٹ کھڑا ک دیا نمل یونیورسٹی کی تعمیر‘1992ء کے ورلڈ کپ کی کامیابی کی داستان اس کا سپورٹر یہ ساری باتیں بڑے فخر سے بیان کرتا ہے عمران ایک پرکشش شخصیت کا مالک ہے اپنی بات سچ ہو یا جھوٹ جم کر بولتا ہے۔بار بار دہراتا ہے یوٹرن لیتا ہے بیانیے بنانے کا ایکسپرٹ ہے۔وہ لوگوں کی اکثریت کو یہ سمجھانے میں کامیاب رہا کہ اس کو نکالنا ایک زیادتی تھی وہ ایک مظلوم کی طرح خود کو پیش کرتا ہے لوگ اس کی بات سن رہے ہیں۔اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔الیکشن کی صورت میں اس کی کامیابی یقینی دکھائی دے رہی ہے موجودہ حکومت کی تمامتر ناکامیوں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور معاشی بحران نے اس کی پوزیشن کو کمزور کر دیا ہے کیا ہی اچھا ہو کہ الیکشن ہوں عمران کی کامیابی کی صورت میں اقتدار دیدیا جائے تو یہ اس بحران کا حل دکھائی دیتا ہے۔یقین جانیں صورتحال اتنی گھمبیر ہے کہ عمران کے اقتدار میں آتے ہی اس کی مخالف جماعتیں دوبارہ اپنی مقبولیت کا زینہ چڑھنے لگیں گی عمران پھر اسی مقام پر پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگائے گا جہاں وہ 10اپریل 2022ء سے پہلے کھڑا تھا۔ 2018ء سے 2022ء کا تجربہ تو عمران خان اور اس کی جماعت کے لئے کوئی خوشگوار یادوں والا تجربہ نہ تھا کیا اقتدار میں دوبارہ آنا عمران کے لئے اتنا آسان نہیں جتنا نظر آ رہا ہے آگے کیا مراحل آئیں گے اس کا علم کسی کو نہیں لیکن یقین سب کو ہے ۔