سچ کو سقراط کی مسند پہ بٹھا دیتا ہے وقت منصور کو سولی پہ چڑھا دیتا ہے آگ کو پھول بناتا ہے کبھی جو لمحہ برف زاروں میں بھی وہ آگ لگا دیتا ہے اور اس سے آگے بھی تو سوچئے کہ ’’ایک دریا میں بنا دیتا ہے رستے کوئی اور پھر ان رستوں کو آپس میں ملا دیتا ہے‘‘ سخن کے پیرائے میں بات اپنی جگہ مگر اچھی نثر بھی مضامین کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ مشت از خروارے کے طور پر نثر کے ایک دو نمونیمالحظہ فرمائیں کہ ان میں جاذبیت اور د لکشی ہے۔ ’’پیاس کو بجھنا نہیں چاہیے وگرنہ کنویں کی تلاش رک جاتی ہے ایک دریافت ہونے والا کنواں کئی زندگیاں بانٹتا ہے۔ یہ متعفن لوگ خوشبو کی بات کر ہی نہیں سکتے۔آپ کا دور اچھا تھا بابا جی ہمارے سمے کی ڈور کو نفرت کی کانچ کا مانجا لگا ہوا ہے جس نے انسانیت کی شہ رگ کو کاٹ دیا ہے بے حسی کا خون بکھرا پڑا ہے ہم سب اکڑی ہوئی لاشیں ہیں جب تک کوئی موم نہیں بنتا درد کی لذت سے آشنا نہیں ہوتا دوستی قربانی اور وقت مانگتی ہے ہمارے پاس دونوں نہیں ۔ ناصر کاظمی یاد آئے: یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے مندرجہ بالا رشحات قلم میں نے طارق بلوچ صحرائی کی تازہ کتاب’ کتبے سے تراشی زندگی‘ سے لئے ہیں اس کتاب میں شامل مضامین افسانے ہیں یا کچھ اور مجھے خبر نہیں مگر یہ سب کچھ پڑھنے کے قابل ہے ان میں نثر کا جمال اور کمال اپنی جگہ مگر یہ آپ کو سوچنے اور فکر کرنے پر بھی مجبور کرتی ہیں۔ طارق بلوچ صحرائی طبعاً ایک درویش ہیں ۔اجلا لباس پہنتے ہیں اور جب بات کرتے ہیں تو اندر یعنی باطن کا اجلا پن بھی نظر آنے لگتا ہے۔ ایک شعر ذ ہن میں عود کرآیا: ہو محبت تو چھلک پڑتی ہے خود آنکھوں سے اے مرے دوست بتانے کی ضرورت کیا تھی ان کے یہ خوش فکر افسانے کے پیچھے ان کی ریاضت اور عبادت یقینا ہے۔وہ زیادہ تر اشفاق احمد اور بانو آپا کے قریب رہے اور بانو آپا تو ان کی تحریروں کی معترف بھی تھیں اور ایک فلیپ میں سند بھی بخش دی۔ان کی میرے ساتھ محبت ہے کہ جب بھی نئی کتاب آتی ہے تو گھر پر تشریف لاتے ہیں اور پھر چائے پر ہم دل کھول کر باتیں کرتے ہیں۔کبھی ان کی گفتگو سے ان کے ہم نام طارق چغتائی بھی یاد آ جاتے ہیں کہ ان کا ایک پیارا سا شعر باعث بنتا ہے: نرم لہجے میں گفتگو کرنا میں نے سیکھا ہے اپنی بیٹی سے دوسری بات یہ کہ ان کی تحریروں میں لمحہ موجود کا تذکرہ بھی ملتا ہے مثلاً کرونا کا تذکرہ بھی ان میں ہے۔ بنیادی بات جو میں سمجھتا ہوں وہ مادہ پرست معاشرے کی چیرہ دستیوں کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔وہ ہماری اعلیٰ اور بلند اقدار و روایت کے علم دار ہیں آپ علمبردار کہہ لیں مثلاً ان کا قلی افسانہ پڑھ کر میں ایک کیفیت میں چلا گیا ۔وہ اپنی بات کو دلیل سے لاتے ہیں اور فوک سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔مٹی سے جڑی ہوئی دانش اور حکمت ان میںنظر آتی ہے ویسے بھی علم عمل میں آتا ہے تو حکمت بنتا ہے وہ کہتے ہیں کہ محبت تریاق ہے ہر وبا کا اور اگر ہم یہ نکتہ جان جائیں تو پھر عید ہی عید ہے ایک لمحے کے لئے یہ اقتباس دیکھیے۔ ماں گوبر کے اوپلے کو پھونک مارتے ہوئے بولی۔تونے اتنی دولت کیا کرنی ہے سب ادھر ہی رہ جاتا ہے ۔سکندر بھی دنیا سے خالی ہاتھ گیا تھا، پھر وہ کھانستے ہوئے دوبارہ گویا ہوئی ہمارے دیہاتوں میں ایک کیڑا گوبر میں پیدا ہوتا ہے اسے گونگٹ کہتے ہیں کچھ اسے گوبر کا کیڑا کہتے ہیں وہ صبح ہوتے ہی گوبر کی تلاش میں نکل پڑتا ہے جہاں سے بھی گوبر ملے اس کا گولہ بناتا جاتا ہے پھر اسے لے کر بل میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے گولہ بڑا اور بل کا سوراخ چھوٹا رہ جاتا ہے۔ کوشش کر کے تھک جاتا ہے تو گوبر کا گول بار چھوڑ کر بل میں چلا جاتا ہے اس کے باوجود طارق بلوچ صحرائی ترک دنیا کا قائل نہیں بلکہ وہ جدوجہد پر یقین رکھتا دنیا کو متاع قلیل ہی سمجھتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ کامیابی کی کلید یہی ہے کہ کوئی دنیا کو بھی دین بنا دے۔اس کتاب پر عطاء الحق قاسمی اور اوریا مقبول جان جیسے ثقہ ادیبوں نے اپنی شاندار رائے دی ہے اور میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسی تحریروں کو کسی بھی سند کی ضرورت نہیں ۔میں خود یہ چاہتا ہوں کہ اپنی بات کرنے کی بجائے طارق بلوچ صحرائی ہی کی جاندار اور اعلیٰ تحریر سے آپ کی نذر کروں، پتہ نہیں وہ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتا ہے وہ بات بناتا ہے تو بنتی چلی جاتی ہے اور پھر بین السطور بھی ایک بات چل رہی ہوتی ہے یہ ہنر مندی سے زیادہ عطا ہے وہ عطا جو شفاف دل اور اجھلے ذھن پر آتی ہے ایک جگہ وہ لکھتا ہے۔ یہ عجیب سی خاموشی تھی برسات سے سہمی کچی قبروں جیسی خاموشی نہ جانے سٹیٹس سے روانہ ہونے والی ریل کی کوک میں آج درد کی سی کسک تھی۔مجھے اچانک منیر نیازی یاد آ گئے: صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا بہرحال اس کتاب کو پڑھنا ایک خوشگوار عمل ہے کہ انسان تخلیق کے رنگ دیکھ سکتا ہے نئی سوچ پبلشرز نے اسے شایع کیا ہے اس کے پیچھے دعائوں کی طاقت ہے وہ لکھتے ہیں کہ باپ انہیں دعا دیتا کہ خدا تجھے دردکی نعمت عطا فرمائے۔ اس کے چچا نے پوچھ کہ لالہ آپ درج کی یہ دعا اپنے بیٹے کو کیوں دیتے ہیں باپ نے کہا تھا کہ درد کی ایک تہذیب ہوتی ہے۔ وہ خوش قسمت ہے جسے دورد کی بینائی عطا ہو جائے اندھے کو آئینہ مفت بھی مل جائے تو بے کار ہے۔درد کی آنکھیں کائنات کے بہت سے اسرار دیکھ لیتی ہیں یہ چپ کے لمحوں میں غم کی ساری تفسیریں بھی پڑھ لیتی ہیں۔ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں