گستاخی معاف! مگر مجھے یہ پوچھنا ہے، بھارت کی ریاست مغربی بنگال میں سفاک ماں باپ نے آئی فون خریدنے کے لیے اپنے 8 ماہ کے بچے کو بیچ دیا، بھارتی رہائشی جے دیو اور اسکی بیوی نے انسٹاگرام ریلز بنانے اور آئی فون 14 خریدنے کے لیے اپنے 8 ماہ کے بچے کو فروخت کیا، اس بھارتی جوڑے پر الزام ہے کہ اس نے اپنی 7 سالہ بیٹی کو بھی فروخت کرنے کی کوشش کی تاہم پولیس نے بچی کو بچا لیا اور بچی خریدنے والی خاتون کو گرفتار کر لیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بیٹے کو بیچنے کے بعد جے دیو نے آدھی رات کو بیٹی کو بھی بیچنے کی کوشش کی، پڑوسیوں نے پولیس کو اطلاع دی جس کے بعد پولیس نے جے دیو کو گرفتار کر لیا ہے، لوگوں کا کہنا ہے کہ جے دیو اور اسکی بیوی اکثر نشے میں رہتے تھے، جس کی وجہ سے خاندان اور پڑوسیوں میں شدید جھگڑے ہوتے تھے، پڑوسی نے بچہ لاپتہ ہونے اور سفاک جوڑے کے پاس آئی فون دیکھنے کے بعد پولیس کو اطلاع دی جس کے بعد پولیس نے تحقیقات شروع کیں تو سنگدل ماں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے بچے کو فروخت کیا اور اس رقم کو مغربی بنگال کے مختلف حصوں میں انسٹاگرام ریلز بنانے کے لیے استعمال کیا، اس 8 ماہ کے بچے کا قصور فقط یہ ہے کہ وہ اس گھر میں پیدا ہوا جہاں ماں باپ انتہائی سفاک، سنگدل اور نشے کے عادی تھے جنہوں نے سوشل میڈیا ریلز مہنگے ترین فون سے بنانے کی خفت میں انسانیت کو روند ڈالا لیکن مجھے یہ پوچھنا ہے کہ جس طرح گزشتہ روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں گزشتہ 15 ماہ میں 500 ارب سے زائد کی بجلی چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے، پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد میں اجلاس میں ارکان قائمہ کمیٹی نے ملک بھر میں بجلی چوری کے معاملے پر حسب معمول تشویش کا اظہار کیا جبکہ ارکان کمیٹی نے انکشاف کیا کہ بجلی چوری کے خلاف ایکشن بھی نہ ہونے کے برابر ہے، پورے سال میں بجلی چوری سے متعلق 55 ہزار شکایات موصول ہوئی ہیں، 20 ہزار بجلی کی ایف آئی آر درج ہوئیں جبکہ صرف 528 افراد کو گرفتار کیا گیا، اجلاس کے دوران چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ بجلی چوری کی وجہ سے گردشی قرض بڑھ رہا ہے، وزارت توانائی کے حکام نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ نقصانات کو پورا کرنے کے لیے بجلی مہنگی کی جاتی ہے، اس کا سارا بوجھ ظاہری سی بات ہے؛ عام آدمی پر منتقل ہو رہا ہے، اس میں عوام کا کیا قصور ہے، مجھے یہ پوچھنا ہے کہ 500 ارب کے بجلی چور کون ہیں؟ کیا وہ یہ سب اپنی قوت کے بل بوتے پر تن تنہا کر رہے ہیں؟ یا ان کو اندرونی آشیر باد حاصل ہے؟ کم از کم اتنا ہی بتا دیجیے کہ 55 ہزار موصول ہونے والی شکایات میں سے ممکن ہے: نصف جھوٹی، ذاتی عناد یا رنجش پر مبنی ہوں، چلیں یہ بھی تسلیم کر لیتے ہیں کہ 20 ہزار درج کی گئی ایف آئی آر واقعات اور جرم کے اعتبار سے حقیقی ہونگی مگر گستاخی معاف یہ تو کوئی بتائے کہ 528 گرفتار ہونے والے افراد کے علاؤہ باقی 14 ہزار اور 72 ایف آئی آر کا کیا بنا؟ ہر ماہ بجلی کے بل کو ایک ہاتھ میں تھام کر دوسرے ہاتھ کو دل کی دھڑکن محسوس کرتے ہوئے خوفزدہ عوام کو کم از کم اتنا تو بتا دیجیے کہ 500 ارب روپے کی بجلی چوری جس کا بوجھ بجلی کے ٹیرف کو بڑھا کر عوام پر ڈال دیا جاتا ہے، اس کی وصولی کیسے ممکن بنائی جائے گی؟ کیا اس بارے میں کچھ کیا جائیگا؟ اگر نہیں تو پھر عام آدمی کو اس کا قصور بتا دیجیے! گستاخی معاف! مگر مجھے یہ پوچھنا ہے: صرف ایک سال میں بجلی کے بنیادی ٹیرف میں پندرہ روپے اکتالیس پیسے فی یونٹ کا ریکارڈ اضافہ کیا گیا، جولائی میں بجلی دس روپے پینسٹھ پیسے فی یونٹ تک مہنگی کی گئی، موجودہ حکومت نے ایک سال میں بجلی کی بنیادی قیمت میں ریکارڈ اضافہ کرکے عوام پر تقریبا ڈیڑھ ہزار ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈال دیا۔ ماہرین کے مطابق بجلی کے بنیادی ٹیرف میں ساڑھے سات روپے فی یونٹ تک اضافے کا بوجھ تقریبا پانچ سو ارب روپے بنتا ہے، موجودہ حکومت پہلے ہی بجلی صارفین پر تقریبا ایک ہزار ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈال چکی ہے۔ حکومت نے گزشتہ مالی سال بجلی کے بنیادی ٹیرف میں فی یونٹ 7 روپے 91 پیسے فی یونٹ کا اضافہ کیا تھا، بنیادی قیمت کے علاوہ صارفین پر 3 روپے 39 پیسے فی یونٹ کا اضافی سرچارج بھی عائد کیا گیا تھا، اب کوئی بتائے ہمارا کیا قصور ہے؟ بھارتی جوڑا مخلوط الحواس معلوم ہوتا ہے کہ موبائل فون کیلئے بچہ فروخت کر ڈالا لیکن پکڑا گیا جبکہ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے، بجلی چوری کوئی کرے اور خیمازہ عام آدمی کو بھگتنا پڑے جبکہ بجلی چور قانون کی گرفت سے بھی باہر رہیں، آخر کب تک عام آدمی کو اسی طرح کچلنے کا سلسلہ جاری رہے گا؟ ایک جانب عوام کو بتایا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط نے ہاتھ باندھ دئیے ہیں، سو بجلی و گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے، دوسری جانب بجلی چوری کا سارا بوجھ عام صارفین پر نقصان پورا کرنے کی غرض سے منتقل ہونے کا انکشاف ہوتا ہے، گستاخی معاف! مگر مجھے یہ پوچھنا ہے: کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ وطن عزیز پاکستان میں مہنگائی کی شرح مسلسل خوفناک ہو رہی ہے، عام آدمی کی قوت خرید جواب دے چکی ہے، معشیت کی حالت زار ایسی کہ 58 کروڑ ڈالر کے زر مبادلہ کے ذخائر مزید گھٹ گئے، پنجاب میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 2930 روپے تک فروخت ہو رہا ہے، فی من گندم کی قیمت 4800 روپے تک مارکیٹ میں جا پہنچی، حکومت کے جاتے جاتے بھی مہنگائی کے وار تھم نہ سکے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جاتے جاتے بھی بے رحمانہ اضافہ کردیا گیا، وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے ارکان سے الوداعی خطاب بھی کر ڈالا اور لب لباب یہ تھا: چئیرمن پی ٹی آئی کی ناقص پالیسیوں کا بوجھ اٹھایا، گستاخی معاف! مگر مجھے یہ پوچھنا ہے: تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا۔۔۔۔مجھے رہزنوں سے گلا نہیں تری رہبری کا سوال ہے!!!