ہرسال ماہ جون داخل ہوتے ہی سکھوں کولگے زخم ہرے ہوجاتے ہیں کیونکہ اس مہینے کے پہلے ہفتے میںان کے سب سے بڑے مذہبی مقام’’ گولڈن ٹمپل‘‘ جو سکھوں کا سب سے بڑاگردوارہ بھی ہے کی بھارتی فوج نے بدترین توہین کی گئی تھی۔ آج سے38 سال پہلے اندرا گاندھی کا دورحکومت میں5 جون 1984کوبھارتی فوج نے’’ آپریشن بلیو سٹار‘‘کے نام پر ’’ گولڈن ٹمپل‘‘ پرحملہ بول دیاا اورخالصتان کے مایہ ناز کمانڈر کمانڈ رجرنیل سنگھ بھنڈراں والااورجنرل شاہ بیگ سنگھ سمیت سینکڑوں سکھوں کاقتل عام کردیا۔رپورٹس کے مطابق ’’آپریشن بلیو سٹار‘‘ میں110بھارتی فوجی ہلاک اور 300 زخمی ہوئے جبکہ 500 سے زائد سکھ قتل کردیئے گئے جبکہ3ہزارسے زائد سکھوں کو حراست میں لیا گیا۔گولڈن ٹمپل کی توہین کر کے پنجاب اور پوری دنیا میں سکھوںکے سینوں میں بھارت نے خنجرگھونپ دیا۔ اگرچہ ’’آپریشن بلیو سٹار‘‘پربھارتی فوج نے اپنی جیت کادعوی تو کیا تھا، لیکن درحقیقت اسے یہاں بہت بڑی شکست ملی کیونکہ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو اپنی جان دے کر اس کی قیمت چکانی پڑی جبکہ سکھ خالصتان کے مطالبے سے سرمومنحرف نہ ہوئے۔ اگرچہ دوسکھ فوجی جوانوں نے اندرا گاندھی سے گولڈن ٹیمپل پر انڈین فوج کے حملے کا بدلہ لے لیا تھالیکن سکھ اس بدلے کوناکافی سمجھتے ہیں ۔سکھوں کاموقف ہے کہ خالصتان بن کرہی اس حملے پرانکاغصہ ٹھنڈا ہوسکے گا۔گولڈن ٹمپل پرحملے کے محض 5ماہ بعد یعنی 31 اکتوبر1984 کو ٹھیک نو بج کر12 منٹ پراس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اپنی رہائش گاہ اور دفتر کے درمیان کے وکٹ گیٹ کو پار کیاتوگیٹ پر تعینات سب انسپکٹر بیانت سنگھ کو دیکھ کر اِندرا گاندھی مسکرائیں، لیکن بیانت سنگھ نے اپنا ریوالور نکال کر ان پر فائرنگ شروع کر دی۔جیسے ہی وہ زمین پر گرپڑیں، توگیٹ کے دوسری طرف تعینات ستونت سنگھ نے بھی اپنی سٹین گن کا پورا میگزین اُن پر خالی کر دیا۔ یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ تقسیم برصغیرکے وقت بابائے قوم محمد علی جناح نے سکھوں کی قیادت کوپیش کش کی تھی کہ وہ پاکستان میں شمولیت اختیار کرلیں تو انہیں مشرقی پنجاب میں ایک ملحقہ آزاد ریاست کا درجہ دیا جائے گا۔ یہ پیش کش بڑی حکمت پر مبنی تھی، اگر سکھ لیڈر سردا ربلدیوسنگھ اور ماسٹر تاراسنگھ اسے تسلیم کرلیتے تو نہ مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کو مغربی پنجاب کی طرف دھکیلا جاتا، نہ مغربی پنجاب سے سکھوں کو یکایک بھاگ کر مشرقی پنجاب میں پناہ لیناپڑتی اور1947میں وحشت و بہیمیت کا وہ طوفان نہ امنڈ آتا جس نے انسانوں کودرندہ بنادیا۔ انتقالِ آبادی اگر ہوتا توکئی سالوں میں آہستہ آہستہ اپنی مرضی اورمنشا کے ساتھ ہوتا۔ کسی کو کوئی پریشانی نہ ہوتی۔ جواہر لال نہرو، اور گاندھی نے اس وقت کی سکھ قیادت کو ورغلایا اور سکھوں کے ساتھ کھلادھوکہ کیااوروہ اپنی ریاست معرض وجود لانے میں ناکام رہے۔ سکھوں کی اس وقت کی قیادت نے، گاندھی کوباپو مان کر کسی تحریری معاہدے کے بغیریقین کرلیاکہ مشرقی پنجاب انہی کوملے گا۔ مسلم لیگ جو باقاعدہ معاہدہ کرنے جارہی تھی، سکھوں نے اسے پس پشت ڈال دیا اوریوں سکھوں کی لیڈرشپ نے اپنی پائوں پر خود کلہاڑی ماری۔آج جب بھارت میں بسنے والا سکھ ایک طرف پامالی کاشکار بنادیا گیا ہے مگراس کے باوجودوہ گولڈن ٹمپل میں کی جانے والی توہین بھول نہیں سکا ۔اگر چہ پنجاب میں سکھوں کے لیڈ کرنے والے زیر زمین ہیں تاہم یورپی ممالک میں پناہ لینے والے سکھ آج بھی اپنی قوم اور ملت کے خلاف ہوئے یہ ظلم نہیں بھلا سکے اور آج بھی گولڈن ٹمپل کی توہین ان کی آنکھیں نم کر دیتی ہے ۔ سکھ نوجوانوں کو آزادی کی چاہت سے دور رکھنے کے لئے انہیں دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ 2014 میں جب مودی برسراقتدار آیاتو اس نے سکھوں کی مظلومیت پر بننے والی فلم Dehli 1984کو سختی سے بین کر دیا تھا اور اس کی سی ڈی رکھنے کو بھی جرم قرار دے دیا ۔گو کہ بھارتی پنجاب میں ابھی بھی حریت پسند سکھوں کے خلاف کاروائیاں ہو رہی ہیں لیکن بھارتی میڈیا اسے چھپاتا ہے۔1990-2000تک کے زمانے میں بھارتی فوج سکھ تحریک کو کچلتی رہی اور سکھ سیاسی اور حریت پسند جماعتوں میں اختلافات کے بیج بوتی رہی۔ سکھ حریت پسندوں کی کاروائیاں پھر بھی جاری رہیں گو ان کی شدت میں واضع کمی دیکھنے میں آئی۔ اگست 1992کو سردار سکھ دیو سنگھ ببر کو بھارتی پولیس نے قتل کر دیا۔ سردار صاحب ببر خالصہ کے چیف تھے۔مئی1992 میں سردار گر دیال سنگھ ببر بھی ایک جھوٹے مقابلے میں قتل کر دیئے گئے۔ 31مارچ 1995 کو (Benanat Singh) چیف منسٹر پنجاب کو حریت پسندوں نے مار ڈالا 20 مارچ 2000 کو بھارتی فوجی دہشت گردوں نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بل کلنٹن کی آمد سے پہلے کشمیری سکھوں پر حملہ کر کے 35سکھ قتل کر ڈالے۔ آج جب نریندر مودی کی حکومت اور بھارت کے ہندو انتہا پسند انسانیت اورتہذیب کے تمام اصول توڑتے ہوئے سکھوں اور مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے حقوق غصب کرنے میں لگے ہوئے ہیں ایسے میں بین الا اقوامی برادری سکھوں کی اخلاقی اور سفارتی امداد کرے تاکہ خطے کو بھارتی مظالم سے نجات دلائی جا سکے۔بھارتی جبر اور طاقت نے سکھ قوم کو اس کی آزادی سے محروم کر دیا ہے۔ آج بھارت میں بسنے والا سکھ ایک طرف سیاسی لحاظ سے منتشر ہے تو دوسری طرف اسے قومی لیڈر شپ بھی میسر نہیں جو اسے بھارتی سرکار کی جانب سے گولڈن ٹمپل میں کی جانے والی پامالی کا کلنک دیکھائے اور بتائے کہ ہندو بنئے نے کس طرح دہلی میں 5ہزار سکھ مرد ، بوڑھے اور بچے قتل کئے اور کیسے بھارت سرکار ہزاروں سکھ جوان کھا گئی۔گو کینیڈا ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں پناہ لینے والے سکھ آج بھی اپنی قوم اور ملت کے خلاف ہوئے یہ ظلم نہیں بھلا سکے اور آج بھی گولڈن ٹمپل کی توہین ان کی آنکھیں نم کر دیتی ہے ۔