حکومت پاکستان نے ایک غیر معمولی خصوصی سرمایہ کاری کونسل قائم کر دی ہے۔کتابی باتیں اپنی جگہ ، عمل کی دنیا میں یہ ایک اچھا قدم ہے جو درست سمت میں اٹھایا گیا ہے۔ سوال اب یہ ہے کیا یہ کونسل ہمارے معاشی وجود کو درپیش خطرات کا تدارک کر سکے گی ؟ خطرات کیا ہیں؟ معاشی ماہرین اگر اس سوال کا جوب دیں گے تو وہ ظاہر ہے زیادہ جامع اور درست ہو گا لیکن ایک عام شہری کے طور پراگر میں اس فہرست کو مرتب کروں، تو وہ کچھ یوں ہو گی۔ سب سے بڑا خطرہ معاشی عدم استحکام ہے۔ایک حکومت بنتی ہے اور ساتھ ہی اس کی بنیادیں کھودنے کا کام شروع ہو جاتا ہے۔کبھی مارچ ، کبھی لانگ مارچ، کبھی احتجاج ، کبھی گھیرائو کبھی جلائو۔ کبھی رستے بند ، کبھی سڑکیں بند۔ سیاست کی زمام کار ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو عام آدمی کے مسائل سے بے نیاز ہیں۔ انہیں کچھ خبر ہی نہیں کہ ا س آدمی کی پیاس کی شدت کا عالم کیا ہوتا ہے، جسے ہر پہر اپنے ہاتھوں سے کنواں کھودنا پڑتا ہو۔اس اشرافیہ نے سیاست کوتماشا بنا دیا ہے۔ آسودہ حال غیر سنجیدہ قیادت خود بھی سطحی معاملات میں الجھی رہتی ہے اور دوسروں کو بھی الجھائے رکھتی ہے۔ ایک دوسرے کی دشمنی میں یہ ہر حد سے گزر جاتے ہیں اور استعمال ہوتے ہیں اور استعمال کیے جاتے ہیں۔کسی کوکچھ معلوم نہیں ہوتا منتخب وزیر اعظم نے پانچ سال گزارنے ہیں یا پانچ ماہ میں ہی فعل ماضی مطلق مجہول بن جانا ہے۔ اس غیر سنجیدگی،اس تماشے اور اس ایڈوانچر ازم نے سیاسی استحکام نہیں پیدا ہونے دیا۔ حکومت بنتی نہیں کہ اعلان عام ہونے لگتے ہیں ، مارچ میں مارچ ہو گا ، ستمبر ستم گر ہو گا ، فلاں ہو گا، فلاں ہو گا۔ ایسے عالم میں سرمایہ کاری نہیں ہوا کرتی۔ جب سرمایہ کار کو معلوم ہی نہیں حکومت کتنے دنوں کی مہمان ہے اور اس کی پالیسی کب اٹھا کر کوڑے میں پھینک دی جائے گی تو اس غیر یقینی کے عالم میں کون ہو گا جو یہاں سرمایہ کاری کرے گا۔ معیشت کو بہتر کرنا ہے تو سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ لازمی ہے۔ کتابی باتیں بہت ساری ہیں اور میں ان سب سے آگاہ ہوں لیکن جو تماشا ہمارے ملک میں جاری رہتاہے اس نے معیشت کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ یہاں سیاست کے نام پر مسلسل ہیجان اور نفرت پھیلائی جاتی ہے۔ گھیراو جلائو ، احتجاج ، مارچ ۔۔۔۔ یا تو یہ شوق پورا کر لیجیے یا معیشت ٹھیک کر لیجیے۔ یہ دونوں تماشے ایک ساتھ نہیں ہو سکتے۔آئین میں دی گئی سیاسی اور شخصی آزادیاں سر آنکھوں پر، لیکن ہمارے ہاں ان کا مسلسل غلط استعمال اب اتنا تکلیف دہ ہو چکا ہے کہ معاشرہ فاقوں کا شکار ہے۔ جب غیر یقینی پیدا ہوتی ہے تو سب سے پہلے سرمایہ بھاگتا ہے۔ ایسے عالم میں کون سرمایہ کاری کرتا ہے۔ ہم تو میڈیا اور سوشل میڈیا پر ’ چسکے ‘ لیتے رہتے ہیں لیکن معیشت کا ستیاناس ہو جاتا ہے۔ایک بار فیصلہ کرنا ہو گا کہ تماشے اور معیشت کی ترجیحی فہرست میں کس کا نمبر کہاں آتا ہے۔ دوسرا مسئلہ آزادی رائے کا سوئے استعمال ہے ۔ آزادی رائے بہت ہی مقدس تصور ہے لیکن اس سے منسلک تمام قوانین کا جب اطلاق ہی نہ ہو اور وہ اپنی افادیت کھو دیں تو آزادی نعمت نہیں وبال بن جاتی ہے۔ سچ اور جھوٹ کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ تاثر اور پروپیگنڈا حقیقت سے زیادہ طاقت ور ہو جاتا ہے اور ریاست بازیچہ افطال بنا دی جاتی ہے۔ یہ محض ایک خدشہ نہیں ہے،یہ اذیت بھی ہمارے مشاہدے کی چیز ہے اور ہم اسے بھگت چکے ہیں۔ جب ریٹنگ ، لائکس اور ویوز ہی سب کچھ بن جائیں تو پھر یہ آزادی رائے اپنا بانکپن ہی نہیں ، افادیت بھی کھو دیتی ہے۔ یہ انتشار اور ہیجان کی قوت بن جاتی ہے۔ یہ ماحول بھی معیشت کے لیے سازگار نہیں۔ تیسرا بڑا مسئلہ معیشت کی سمت ہے۔ جب معیشت اپنی پیداواری قوت کی بجائے قرض پر کھڑی ہو تو اعدادو شمار کا گورکھ دھندا کتنا ہی حسین کیوں نہ ہو ، اس کا انجام خوش گوار نہیں ہو سکتا۔ قرض لے لے کر ہم نے پہاڑ کھڑا کر دیا ہے۔ لیکن ملک میں ڈھنگ کی کوئی ایک انڈسٹری ایسی نہیں کہ ہم بھی دنیا کو کچھ فروخت کر سکیں ۔ جب تک ہمارا اپنا پیداواری ان پٹ نہیں آتا ، قرض کی بنیاد پر فاقہ مستی رنگ نہیں لا سکتی۔ چوتھی عذاب ہماری بیوروکریسی ہے۔ آپ ایک ہزار اقوال زریں سنا لیں اور لکھ لیں ، لیکن جب تک یہ نو آبادیاتی افسر شاہی کا موجودہ ڈھانچہ قائم ہے ، معیشت ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ افسر شاہی کی گردن میں رعونت ہے اور ٹماٹروں کی قیمتیں چیک کرنے والا اے سی اس رعونت کی مجسم شکل ہے۔ یہ افسر شاہی سرمایہ کار کو ایسے ایسے چکروں میں ڈال کر ذلیل کرتی ہے کہ وہ سرمایہ لے کر ملک ہی چھوڑ دیتا ہے۔ افسر شاہی کا کام سرمایہ کار کو سہولت دینا نہیں اسے الجھا کرا س کے لیے مسائل پیدا کرنا ہے تا کہ اوپر کی آمدن کے امکانات دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے رہیں۔ پانچواں بڑا مسئلہ حکمرانوں کا اخلاقی وجود ہے۔ جب ان پر کرپشن کے الزامات ہوں گے اور یہ اپنا سرمایہ ملک میں نہیں رکھیں گے،تو ان کے کہنے پر بیرون ملک سے سرمایہ کاری کرنے کون آئے گا؟جہاں آپ خود سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں وہاں کوئی دوسراکیسے کرے گا؟ چھٹا مسئلہ ہمارے مزاج کا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی پالیسی ہی نہیں ہوتی۔ ایک حکومت آتی ہے ایک پالیسی بنائی جاتی ہے دوسری آتی ہے وہ یو ٹرن لے کر بالکل نئی پالیسی بنا دیتی ہے۔ سرمایہ کار حیران کھڑا سوچ رہا ہوتا ہے کہ ہن کی کریے؟ سی این جی پر دل آیا تو گلی گلی سٹیشن کھل گئے۔ اب یہ دھندا بند ہے اور کوئی حساب لگانے کو تیار نہیں کہ ملک میں جو لاکھوں سی این جی کٹیں اور سلنڈرز اب ناکارہ پڑے ہیں ان کا مالیاتی حجم کیا ہے؟میثاق معیشت ناگزیر تھا کہ کم از کم پندرہ بیس سال کے لیے ایک پالیسی کے بنیادی خدو خال دے دیے جائیں کہ حکومت کسی کی بھی ہو، ہماری بنیادی ترجیح یہ ہو گی تا کہ سرمایہ کار اعتماد سے سرمایہ کاری کر سکے۔ چین جیسا بڑا ملک تو سی پیک پر ضمانتیں مانگ لیتا ہے۔ عام سرمایہ کار کے لیے کیا ضمانت ہے؟ اس طرح کے بہت سے مسائل ہیں جو معمول کی کارروائی سے حل نہیں ہو سکتے۔اس کے لیے آئوٹ آف باکس سوچنے کی ضرورت تھی۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل اس سلسلے میں ایک بنیادی قدم ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس میں ان چند مسائل پر فوکس کیا گیا ہے ۔ یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے ۔لیکن ضروری ہے کہ معیشت کو اپنی ریڈ لائن قرار دیتے ہوئے ہر ایک پر واضح کر دیا جائے کہ سیاست ، جلسے ، جلوس، احتجاج ، آزادی رائے اور ہر طرح کے ایڈوانچرازم کی حدود وہاں تک ہیں جہاں سے معیشت کا دائرہ کار شروع ہوتا ہے۔جہاں معیشت کی حدود شروع ہو جائیں گے وہاں کوئی چونچلا ، کوئی ایکٹوزم ، کوئی ایڈ وانچرازم ، کچھ بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔