وقت اور حالات تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت بھی تبدیل ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی تہوار نئی سوچ اور نئے آئیڈیاز کے ساتھ منائے جائیں اور ملک و قوم کے بہترین مفاد میں فیصلے کئے جائیں۔ مسلم لیگ کا جہاں قیام عمل میں لایا گیا، ہم نے وہ جگہ فراموش کی تو وہاں کی باسیوں نے ہمیں فراموش کر دیا اور وہ الگ ہو گئے، جس اسمبلی نے پاکستان کیلئے قرارداد پاس کی وہاں بھی محبت کی کوئی نشانی یا یادگار قائم نہیں کی گئی جس کی بناء پر وہ ناراض نظر آتے ہیں اور یہ ٹھیک ہے کہ جس نے ایک روپیہ دے کر مسلم لیگ کا رکنیت فارم حاصل کیا اُس کا بھی قیام پاکستان میں حصہ ہے مگر وسیب کے لوگوں نے اپنی آزاد اور خود مختار ریاست دینے کے ساتھ ساتھ اربوں روپیہ نقد ، کھربوں کا سونا، چاندی اور ٹریلین ڈالرز کے وسائل پاکستان کو دیئے اور جس کے بارے میں قائد اعظم نے کہا کہ پاکستان بننے سے پہلے ایک پاکستان تھا اُس کا نام ریاست بہاولپور تھا، اس وسیب کے احسانات کا تذکرہ تاریخ یا نصاب کی کسی کتاب میں نہیں ہے اور وہاں کی حالت یہ بنا دی گئی کہ لاہور کے صحافی مجاہد حسین کو کتاب ’’بہاولپور خوشحال ریاست سے پسماندہ ڈویژن تک‘‘ لکھنا پڑی۔ لاہور کی ترقی سے کسی کو اختلاف نہیں مگر اُس کو اتنا بڑا دیوہیکل بھی نہیں بنانا چاہئے کہ کل کو سنبھالا نہ جا سکے۔ لاہور میں چار کھرب کی لاگت سے اورنج ٹرین بنی اُس کی سبسڈی اربوں میں ہے جو کہ بھاری سود کے قرض اور غریبوں کے محاصل سے پورا ہو رہا ہے۔ محترمہ مریم نواز نے آتے ہی لاہور میں انڈرگرائونڈ ریلوے لائن، لاہور میں نوازشریف کینسر ہسپتال اور لاہور ہی میں نوازشریف آئی ٹی یونیورسٹی کے منصوبے دیئے ہیں۔بات یہ ہے کہ دریائے راوی کے خشک ہونے سے لاہور میں پینے کا پانی میسر نہیں، زیر زمین پانی کڑوا ہو چکا ہے، سیوریج کے مسائل ہیں، بے ہنگم ٹریفک اور سموگ و آلودگی نے اہل لاہور کو طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے، ایوریج عمر کم ہو رہی ہے اور سچ پوچھئے لاہور کو ترقی کے نام پر بہت بڑے عذاب میں مبتلا کیا جا رہا ہے اور یہی رفتار رہی تو لاہور مسائل کے انبار سے ایک دن پھٹ پڑے گا اور ایک یادگار عاقبت نا اندیش حکمرانوں کی بھی بنے گی۔ لاہور، ملتان، پنڈی، گجرانوالہ، فیصل آباد ان شہروں کو بڑھنے سے روکا جائے، نئے شہر آباد کئے جائیں۔سب کو مساویانہ ترقی کے مواقع مہیا کئے جائیں، یہی یوم قرار داد پاکستان کا پیغام ہے۔ 23مارچ 1940 ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسویں اجلاس ہوا جس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی، اس اجلاس میں قرارداد منظور کی گئی ۔ جگہ پر یادگار بنانے کا فیصلہ ہوا۔ 1960 ء میں ’’ پاکستان ڈے میموریل کمیٹی ‘‘ قائم کی گئی ، بائیس رکنی اس کمیٹی میں معروف شاعر صوفی غلام مصطفی تبسم بھی شامل تھے، یادگار کو روسی نژاد ترک مسلمان مرات خان نے بنایا، اس کی بلند ی196 فٹ ہے، مینار پاکستان پر 19 تختیاں نصب ہیں، اردو ، انگریزی زبان میں قرارداد لاہور کا متن درج ہے، اس میں خودمختار ریاستوں کے الفاظ شامل ہیں ۔ ان ریاستوں کا مطلب صوبے تھے، صوبوں کو اختیارات اور خود مختاری تو کیا صوبے ختم کر کے ون یونٹ بنایا گیا ۔ بہاولپور کو بھی پنجاب میں شامل کر دیا گیا۔ لاہور میں بنائی جانیوالی یادگار کے لفط ’’ یادگار ‘‘ پر اعتراض ہوا کہ یادگار تو ختم ہو جانے والی چیز کی ہوتی ہے ، پاکستان زندہ ہے، اس کی یادگار بنانا کونسی دانشمندی ہے ؟اعتراض کے بعد اس کو ’’ مینار پاکستان ‘‘ کا نام دیا گیا لیکن لاہوری آج بھی اسے یادگار ہی کہتے ہیں، جب یادگار بنائی جا رہی تھی تو بنگالی سیاستدانوں کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اگر لاہور میں مسلم لیگ کے ایک اجلاس کی یادگار بنائی جا رہی ہے اور کثیر سرمایہ خرچ کیا جا رہا ہے تو اس طرح کی ایک یادگار مشرقی پاکستان میں بھی بنائی جائے جہاں 1906 ء میں مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی گئی لیکن ان کی بات کسی نے نہ سنی ۔ سندھ سے بھی یہ آواز آئی کہ قرارداد لاہور سے قبل سئیں جی ایم سید نے سندھ اسمبلی سے تین سال قبل متفقہ طور پر قرارداد منظورکرائی لیکن اس کی کوئی یادگار نہیں بنائی گئی ۔ یوم قرارداد پاکستان کے موقع پر جہاں قوم کو یکجہتی کی ضرورت ہے وہاں دہشت گردی ، انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے ثقافتی پاکستان کی ضرورت ہے۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگوں کو برابر حقوق ملیں۔ ہمسایہ ملک بھارت میں 188 زبانیں اور ساڑھے پانچ سو بولیاں بولی جاتی ہیں۔ ان میں سے بڑی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ اسی طرح پاکستان میں 76 کے قریب زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں یہاں بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ زبانیں جو نصابی اہلیت کے حامل ہیں انہیں قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔ یوم پاکستان کے موقع پر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سابقہ غلطیوں کو پھر سے نہ دہرائیں۔ قیام پاکستان کے وقت ایک زبان کو قومی زبان قرار دینے کے منفی نتائج سامنے آئے اور ہم مشرقی پاکستان سے بھی محروم ہوئے۔ اب اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم حقائق کو تسلیم کریں اور پاکستانی زبانوں کو اُن کے حقوق دیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ پاکستانی علاقائی زبانوں کی تدریس بھی اس کی حق دار ہے۔ پاکستانی زبانوں پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو، پوٹھو ہاری، ہندکو، بلتی شینا، پروشسکی، پہاڑی، دری، کوہستانی، کشمیری، گوجری، بلوچی اور براہوی وغیرہ کے تدریسی پہلو کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ آج مرکز اور صوبے کا اقتدار ایک بار پھر میاں برادران کو ملا ہے تو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں بڑے فیصلے کریں، پنجاب کے حجم کو کم کریں اور پاکستان میں بسنے والی قوموں کی تہذیب اور ثقافت کو پروموٹ کریں اور پاکستانی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیں۔