اشرافیہ نے تو کمال ہی کردیا ہے۔ اپنی سولہ ماہ کی نکمی اور ناکام ترین حکومت اور تحریک انصاف کی مظلومیت کے بیانیے کے باوجود اس نے الیکشن اپنے نام کرلیا ہے۔اتحادیوں نے تین صوبوں میں حکومت بنالی ہے اور وفاق میں دوتہائی اکثریت کے مالک ٹھہرے ۔ پرانے پاکستان کی واپسی کا عمل جو دو سال پہلے تحریک انصاف کی ایک ٹانگ پر کھڑی حکومت گرانے سے شروع ہوا تھا وہ آزادی اظہار پر پابندیوں، حقِ اجتماع پر قدغن، سابق حکمران پارٹی کو انتخابی عمل سے باہر کرنے اور نتائج کی غیر شفافیت سے ہوتا ہوا اشرافیائی جماعتوں کے دوبارہ اقتدار میں آنے پر منتج ہوا ۔ اس اقتدار کو دوام کیسے حاصل ہوگا یہ ایک معمہ ہے جو ابھی حل ہونا ہے۔ معیشت ڈانواں ڈول،معاشرہ منقسم اور جمہوریت کی ساکھ مجروح ۔ اس گرداب سے نکلنے کا فریضہ اسی اشرافیہ کے سر آن پڑاہے جسے اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اگر اشرافیہ کہ پچھلی حکومت، جو اگرچہ مختصر دورانیے ہی کی سہی ، کو دیکھا جائے تو ان تلوں سے تیل نکلتا دکھائی نہیں دے رہا۔ معیشت کے محاذ پر مجبور ِمحض ہے کہ اسے آئی ایم ایف کا قرضہ چاہیے جس کے لیے اسکی شرائط پر عمل کرنا ہوگا۔ قرضوں کی ادائیگی کا راستہ اشرافیہ نے یہی نکالا ہے کہ غریب اور متوسط طبقات پر ایک طرف ٹیکس بڑھائے جائیں تو دوسری طرف اشیائے ضروریہ پر سبسڈی بھی واپس لے لی جائے۔ مزید برآں، تعلیم اور صحت جیسے عوامی خدمت کے شعبوں کو نجی شعبے کے حوالے رکھا جائے۔ سول حکومتوں کا یہ بھی وطیرہ رہا ہے کہ کساد بازاری کے دوران روپے کی قیمت میں کمی اور شرح سود میں اضافہ کرتی رہی ہیں۔ ان دونوں صورتوں کا نقصان عام شہریوں کو ہوتا ہے کہ پہلی صورت میں ان کی جیب پر ڈاکہ پڑتا ہے اور اشیاء ضروریہ ان کی پہنچ سے دور ہوجاتی ہیں جبکہ دوسری صورت میں روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں کہ بینک چھوٹے کاروباری طبقے کی بجائے حکومت کو قرضہ دیتے ہیں۔ یوں اگر لگے بندھے راستے پر چلنا ہے تو موجودہ حکومت اس کے لیے موزوں ہے کہ تبدیلی اس کے ایجنڈے پر نہیں ہے۔ اشرافیہ ملکی وسائل پر تو قابض ہے لیکن ٹیکسوں میں اسکا حصہ تیس فیصد سے بھی کم ہے۔ دوسری طرف مراعات کا رخ بھی اسی کی طرف ہے۔ معاشی محاذ پر تبدیلی تو تب ہی آئے گی جب محصولات کی شرح بھی بڑھے ، لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ بھی ہوگا۔ ایسے تمام شعبے جو ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں انہیں ٹیکس کے دائرہ میں لانا لازم ہے۔ دوسرا راستہ جو آئین میں موجود ہے وہ مقامی حکومتوں کا نظام ہے جنہیں اصولی طور معاشی ، سیاسی اور انتظامی طور پر آزاد ہونا چاہیے۔ تعلیم ، صحت وصفائی ، تفریح اور سماجی بھلائی کے امور انہیں حکومتوں نے انجام دینا ہوتے ہیں تو اصولی طور صوبائی بجٹ کا کم از کم ستر فیصد حصہ انہیں کے ذریعے خرچ ہونا چاہیے۔ لیکن اشرافیہ اس نظام کے خلاف ہے۔ وسائل وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوجاتے ہیں لیکن جہاں صوبائی دارلحکومت واقع ہیں ، پھنس جاتے ہیں۔ لہور، پشور، کوئٹہ اور کراچی کے درمیان واقع ایک بہت بڑا خطہ ترقی اور خوشحالی کے دائرے سے باہر ہے۔ تحریک انصاف کے منظر عام پر آنے اور اشرافیہ کا دردِ سر بننے کے پیچھے اٹھارویں ترمیم کے وہ غیر ارادی نتائج ہیں جسے پاکستان کی بیشتر آبادی بھگت رہی ہے۔ ایک طرف نئے صوبوں کے قیام میں رکاوٹیں ہیں تو دوسری طرف اشرافیہ اقتدار اور وسائل کی نچلی سطح پر منتقلی کے خلاف ہے۔ مقامی حکومتوں کے فعال نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی پارٹیوں پر عوامی دبائو نہیں ہوتا جس کی وجہ سے وہ مافیا کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں۔ جمہوریت کی ساکھ متاثر او مساوی اور پائدار ترقی کا عمل جمود کا شکار ہے۔ تیسرا نقطہ جو قابلِ غور ہے وہ توقیرِ انسانیت کا تصور ہے جو جمہوریت کی بنیاد اور قومی یکجہہتی کی اساس ہے۔ برطانوی عہد سے نافذ قانونی ڈھانچہ اس تصور کی نفی ہے۔ اشرافیہ عہد غلامی کی اس روایت کو سینے سے لگائے ہوئے تاکہ معاشرے میں حریت فکر پروان نہ چڑھ سکے۔ انیسویں صدی سے قائم اس قانونی ڈھانچے کا حال ہی میں سابق حکمران پارٹی پر اطلاق ہوا ہے۔ بغاوت کے الزام میں چادر وچار دیواری کی پامالی، اظہار ر ا ئے اور اجتماع کے حق سے انکار اور عدالتوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں ناکامی کے پیچھے یہی انیسویں صدی کا قانونی ڈھانچہ ہے۔ ڈر اور خوف کی فضا سرمایہ کاری کی راہ میں تو رکاوٹ ہے ہی، معاشرے کو بھی تقسیم درتقسیم کردیتی ہے۔ ہماری اشرافیہ کو جمہوریت اس حد تک چاہیے جہاں تک وہ انکی صدیوں سے حاصل مراعات کا تحفظ کرسکے۔ اس سے آگے جو بھی ہے وہ اس کے نزدیک انتشار اور فتنہ ہے۔ یوں اشرافیہ فطری طور پر ریاست سے ٹکرائو کے راستے پر گامزن ہے۔ بیچ کا راستہ تو یہی ہے کہ قانونی ڈھانچے کو شہریت کے عالمی تصور (مساوات اور آزادی) سے ہم آہنگ کیا جائے اورخود مختار مقامی حکومتوں کا قیام ترجیحی بنیادوں پر عمل میں لایا جائے۔ سوال یہ ہے کہ آیا اشرافیہ اپنے لیے کوئی باعزت راستہ اپنائے گی یا پھر تخت اور تختہ کی پالیسی پر گامزن رہے گی؟ کچھ نہ کرنے کے لاکھوں بہانے کہ تاریخ میں شاید سب سے مضبوط حزب اختلاف کا اسے سامنا ہے جو ہزار رکاوٹوں اور جبرکے باوجود ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ایوانِ زیریں میں واپس آئی ہے اور خیبر پختونخوا میں اس کی حکومت بھی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی ، جو کہ بینادی طور پر ایک بائیں بازو کی پارٹی ہے، اشرافیائی مفادات کی سب سے بڑی محافظ بن گئی ہے۔ ن لیگ اور تحریک انصاف کی مخاصمت کا سب سے بڑا فائدہ اب تک اسی نے اٹھایا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی ابن الوقتی کے اصول کے تحت طاقت و اختیار کی بندر بانٹ تک ہی محدود رہتی ہے اور بلا ول بھٹوزرداری پارٹی کے بنیادی وژن، جسکا انہوں نے انتخابی مہم میں نعرہ لگایا تھا، کے مطابق آئین کا کما حقہ اطلاق نہیں کراسکتے تو یوں سمجھیں کہ یہ اشرافیہ کی آخری حکومت ہے اور اسکی عمر بھی طویل نظر نہیں آرہی۔