وزیر اعظم مودی نے پیر کو ایک انتخابی رَیلی سے خطاب کرتے ہوئے، سی اے اے اور دیگر کے خلاف جاری مظاہروں پر تنقید کی اور کہا کہ یہ مظاہرے بے ساختہ اور برجستہ (اتفاقیہ) نہیں ہورہے ہیں بلکہ سازش کا نتیجہ ہیں۔ اس کیلئے اْنہوں نے خاص طور پر جامعہ اور شاہین باغ میں ہونے والے مظاہروں کا حوالہ دیا۔ ان دو مقامات کے مظاہروں کا خصوصی تذکرہ نہ تو مفہوم سے عاری ہے نہ ہی سیاست سے خالی بالخصوص ایسے وقت میں جبکہ دہلی اسمبلی الیکشن میں چند ہی روز باقی ہیں۔ اس کے باوجود اگر یہی سمجھانا مقصود ہے کہ مظاہرے سازش کا نتیجہ ہیں تو یہ سوال لازمی ہوجاتا ہے کہ کیا امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے متعدد شہروں میں ہونے والے مظاہروں کے پس پشت بھی کوئی سازش ہے؟ چند روز قبل ایک مظاہرہ جنیوا میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر پر ہوا جس میں لندن، ہمبرگ، میونخ، وارسا، بروسیلز، ہیلسنکی اور دیگر یورپی شہروں سے آئے ہوئے 200 ہندوستانی طلبہ اور پروفیشنل شریک ہوئے۔ تین گھنٹے تک جاری رہنے والے اس مظاہرہ میں جو پوسٹر استعمال کئے گئے اْن میں سے ایک پر لکھا تھا: ’’فاشزم بند کرو‘‘۔ دورانِ مظاہرہ بارش ہونے لگی مگر مظاہرین ڈٹے رہے۔ اس دوران آئین کی تمہید پڑھی گئی۔ فن لینڈ کی ایک ہندوستانی طالبہ سنگیتا شیشادری کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے اقوام متحدہ کے صدر دفتر پر مظاہرہ کا فیصلہ یوں ہی نہیں کیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ عالمی ادارہ حقوق انسانی کے تحفظ کی ضمانت دے۔‘‘ کیا یہ مظاہرہ بھی کسی سازش کا نتیجہ تھا؟ کیا نیویارک ٹائمز اور وال اسٹریٹ جرنل سمیت متعدد غیر ملکی اخبارات نے کسی سازش کے تحت (یا، پیسہ لے کر) وہ خبریں اور مضامین شائع کئے جن میں سی اے اے کے جبر کی توثیق کی گئی؟ کیا یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں پیش ہونے والی6 قراردادیں بھی سازش کا نتیجہ ہیں؟ کیا عالمی سرمایہ کار اور کھرب پتی جارج سوروس کا بیان بھی اسی قبیل کا ہے؟ فرض کرلیا جائے کہ واقعی ایسا ہے تو حکومت کیوں نہیں معلوم کرتی کہ اس کے پس پشت کون ہے؟ کانگریس ہے؟ عام آدمی پارٹی ہے؟ اور اگر انہی دو پارٹیوں میں سے کوئی ہے تو یہ حکمراں جماعت کیلئے تشویشناک ہونا چاہئے کہ ان پارٹیوں میں جامعہ اور شاہین باغ سے لے کر ملک کے سیکڑوں مقامات تک حتیٰ کہ بیرونی ملکوں میں مظاہروں کا اہتمام کرنے یا کروانے کی صلاحیت ہے! یہ بھی فرض کرلیا جائے کہ ان میں اتنی صلاحیت اور طاقت ہے تو حکومت ان کی سازش کا پردہ فاش کیوں نہیں کرتی؟ کیوں نہیں بتا دیتی کہ مظاہرے سیاسی ہیں؟ تمام سراغرساں ایجنسیاں عملاً، حکومت کے احکام کی پابند ہیں۔ حفاظتی ایجنسیوں کو بھی متعلقہ وزارت سے آرڈر ملتے ہیں، مظاہروں کو کم وبیش 50 دن گزر چکے ہیں، اگر کوئی سازش تھی تو ان 50 دنوں میں اس کا بھانڈہ پھوٹ جانا چاہئے تھا۔ حکمراں جماعت کے آئی ٹی سیل کے سربراہ اَمیت مالویہ نے جنوری میں کہا تھا کہ شاہین باغ میں مظاہرہ کرنے والی خواتین کو5'5 سو روپے ملتے ہیں۔ اگراس بات کا ثبوت تھا تو امیت مالویہ نے محض بیان دینے پر اکتفا کیوں کیا، 5'5 سو بانٹنے والے کو رنگے ہاتھوں پکڑوا کیوں نہیں دیا؟ یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ حکمراں طبقہ عوام کے جذبات و احساسات کو سمجھنا نہیں چاہتا بلکہ اْن سے چشم پوشی کرتے ہوئے الزام تراشی کی سیاست کررہا ہے جو اس کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔ اس نے سوچا نہیں تھا کہ سی اے اے، این سی آر اور این آر پی اس طرح گلے کی ہڈی بن جائیں گے۔ اب، قدم پیچھے لینے سے اَنا روکتی ہے اورآگے بڑھنے سے مظاہرین، جن کے تعلق سے شاید اب بھی یہی سمجھا جارہا ہے کہ آج نہیں تو کل، اپنے آپ نہیں تو ڈرانے دھمکانے یا قافیہ تنگ کرنے سے یہ لوگ اپنے گھروںکو لَوٹ جائینگے جبکہ اس کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔ (بشکریہ: روزنامہ انقلاب بھارت)