مکرمی !وحشت و بربریت اور انسانی قتل عام کی جنگ کے دوران اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں ننگِ انسانیت کے جو مناظر سامنے آئے ہیں وہ انسانیت کو تو شرما ہی رہے ہیں، انسانی حقوق کی چمپئین عالمی تنظیموں، عالمی قیادتوں اور بالخصوص مسلم قیادتوں کی سفاکانہ بے حسی پر بھی خجالت کا ٹھپہ لگا رہے ہیں۔ اسرائیل نے جس بے دردی کے ساتھ غزہ میں حشر اٹھایا ہے وہ انسانی تاریخ کے سیاہ باب بن چکا ہے۔ تعلیمی اداروں،' مدارس' مساجد' مارکیٹوں اور ہسپتالوں تک پر ٹینک چڑھا دیئے گئے۔ بے رحمانہ بمباری کے ذریعے غزہ کی زمین کے چپے چپے کو ادھیڑ دیا گیا اور ہنتی بستی آبادیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا۔ اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں خاندانوں کے خاندان لقمہ اجل بن گئے اور زندہ بچنے والے انسان زخمی حالت میں بے یارومددگار بھوکے پیاسے' علاج معالجہ اور ادویات و خوراک کی فراہمی کے بغیر ہی بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے اور مسلم دنیا کی جانب سے سوائے رسمی مذمتی بیانات اور قراردادوں کے' مظلوم فلسطینیوں کو آج کے دن تک کسی عملی اقدام کی صورت میں کچھ بھی حاصل نہیں ہو پایا۔ اسکے برعکس ساری اسلام دشمن الحادی قوتیں اعلانیہ اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہیں اور فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے اسکے عزائم کی تکمیل کیلئے اسکی مکمل جنگی' حربی سپورٹ کر رہی ہیں۔ اسے مظلوم فلسطینیوں کیخلاف ہر قسم کے اسلحہ سے لیس کیا جارہا ہے اور جنگی جنون کو آگے بڑھانے میں اس کی اخلاقی اورحربی امداد کی جارہی ہے پاکستان کی سیاسی' دینی قیادتوں کا یہ موقف بھی حقیقت پر مبنی تھا کہ مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل کسی صورت قبول نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ حل اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ مگر بدقسمتی سے مسلم قیادتیں ہی مصلحتوں اور ذاتی' فروعی مفادات کے لبادوں میں لپٹی بیٹھی ہیں ورنہ ایٹمی طاقت کے حامل مسلم دنیا کی کسی ایک ملک کی جانب سے بھی اسرائیلی بربریت کا مسکت جواب دینے کا محض اعلان کیا جائے تو اسرائیل ہی نہیں' اسکے سرپرستوں اور سہولت کاروں کے بھی ہوش ٹھکانے پر آجائیں۔ آج اگرطاغوتی طاقتیں فلسطین کا حشرنشر کررہی ہیں' تو کل کو کوئی دوسری مسلم ریاست بھی خود کو کیسے بچا پائے گی۔ اس وقت الحادی قوتوں کیلئے اتحاد امت ہی ٹھوس جواب ہو سکتا ہے۔ (قاضی جمشیدعالم صدیقی، لاہور)