بات اگر صرف ’’جب آئے گا عمران ‘‘ یا ’’میاں دے نعرے وجنے ہی وجنے نیں‘‘ تک ہوتی تو شاید پاکستان ان اوکھے ویلوں سے آسانی سے باہر نکل آتا۔مگر سپریم کورٹ کے فیصلے نے بات کو اور بھی الجھا دیا ہے۔ دنیا بھر میں اربن مڈل کلاس کسی بھی ملک میں سیاست میں جو رجحانات Trends لاتی ہے وہ کبھی بھی آئین ۔جمہوریت اور ریاست سے بڑے نہیں ہوتے۔ ابھی ایک فارن کوالی فائیڈ ڈاکٹر صاحب کا پیغام آیا Whatsapp پر ۔ جی ہمارا لیڈر انقلاب لا رہا ہے۔ اس وقت نون۔۔ جنون اور اسٹیبلشمنٹ سبھی پریشان ہیں۔ میاں
جمعرات 19 مئی 2022ء
مزید پڑھیے
ناصرخان
کرنٹ اینڈ افیئرز
منگل 26 اپریل 2022ءناصر خان
جس طرح کا منظر نامہ آج کا پاکستان دیکھ رہا ہے ۔ شاید سیاسی تقسیم ایسی کبھی نہ تھی حتی کہ 90ء کی دہائی میں بابو اور بی بی کی لڑائی میں بھی۔ اس وقت لوگ کہتے تھے بہت زیادہ ہے ۔ مگر آج لگ رہا ہے اس سے بھی زیادہ ہے۔ معاشرہ بھی تقسیم ہے۔۔۔ میڈیا بھی ۔ مزید یہ کہ سٹیبلشمنٹ میں دراڑیں ڈالنے کی کاوشیں تہہ دل سے جاری و ساری ہیں۔ 96ء میں جب فاروق لغاری نے محترمہ کی حکومت آٹھویں ترمیم کے تحت فارغ کی تو اخبار کی ہیڈ لائن محترمہ کے اس جملے
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
ولی کا جہاں اور ہے،دانش ور کا جہاں اور!
بدھ 20 اپریل 2022ءناصر خان
واصف علی واصف صاحب کہا کرتے تھے کہ درویش اور دانشور میں ایک بنیادی فرق ہوتا ہے۔ درویش کو مل کر عام آدمی کو بھی عزت کا احساس ہوتا ہے اور دانش ور؟ دانش ور آپ کے اصل قد کو گھٹا کر آپ کو بونا بنا دیتا ہے۔ انسان نے وجود میں آتے ہی تجسس سے کام لینا شروع کردیا کہ کیا ہے؟ کون ہے؟ کیوں ہے؟ تب سے اب تک زندگی کے بنیادی سوالات وہی ہیں۔یونان کے ارسطو سے آج تک ۔ سوال نہیں بدلے۔ افراد بھی نہیں بدلے۔ مسائل بھی وہی ہیں۔ زندگی کہاں بسر ہو؟ کیسے بسر
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
الٹے پیالے کون بھرے گا؟
منگل 22 مارچ 2022ءناصر خان
زوال کا کمال ہے۔ آئین نے حکومتوں کے آنے اور جانے کا ایک طریقہ طے کر رکھا ہے۔ یہ ادارے جو ہیں ان کا ہماری تاریخ نے طے کر دیا۔ حیرت بھی ہے اور افسوس بھی کہ اس میں ایک نئی ناخواندہ پخ حق اور باطل بیچ میں گُھس گئی ہے۔ کیا یہ صلیبی جنگ ہے؟ کیا اپوزیشن یہود اور ہنود ہیں؟ کیا پارٹیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے ہاں اراکین پارلیمنٹ یرغمال ہیں؟
اگر کسی کو اپنے لیڈر کے کارنامے ، مزاج اور فیصلے پسند نہیں تو وہ کیا کرے؟مزید یہ کہ اس میں ذاتی رنج اور غم ہیں جو
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
فرض کر لیتے ہیں!
بدھ 16 مارچ 2022ءناصر خان
فرض کرنے سے پہلے عدیم ہاشمی مرحوم کا ایک شعر ۔۔۔۔ اس نے کہا کہ ہم بھی خریدار ہو گئے ۔۔۔۔ بکنے کو سارے لوگ ہی تیار ہو گئے۔۔۔۔ غزل بہت خوبصورت ہے مگر میکائولی اور چانکیہ کے جہان میں ، گندگی کے ڈھیروں پر تتلیوں کے کیا معنی؟ کار جہاں دراز سہی ، پاور پلے خانہ خراب سہی ، بات تو کرنی پڑتی ہے۔ فرض کرلیتے ہیں کہ عدم اعتماد کے چیف معمار آصف زرداری چوہدری پرویز الہٰی کو ٹارگٹ سونپ دیتے ہیں سبھی اتحادیوں کو ایک ٹوکری میں ڈالنے کا ۔ نواز شریف بھی آمنا و صدقنا کہہ
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
ہم سب کی جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے
منگل 08 مارچ 2022ءناصر خان
یہ جمہوریت ہی کا حُسن ہے کہ بھوکے ننگے عوام دم سادھے انتظار کر رہے ہیں کہ کون جیتے گا؟ نون کہ جنون۔ مولانا کہ عمران۔ مریم کہ بلاول۔ حالانکہ موضوعات یہ ہونے چاہئیں تھے کہ ہم نے اور ہمارے پڑوسیوں نے ایک ہی وقت میں آزادی حاصل کی۔ہمارے ایک حصے نے بہت بعد میں ہم سے علیحدگی اختیار کی ۔وہی حصہ جو جُدا ہوا تو اُس وقت ہم آبادی میں کم تھے۔اب آبادی میں وہ کم ہیں۔بعض معاملوں میں ہمارے پڑوسی بھارت سے بھی آگے۔مگر سیریس باتوں اور بحثوں کا رواج ہمارے ہاں ہے ہی نہیں۔ابھی کل میں پڑھ
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
بڑھتا ہوا دبائو اور پاکستان !
منگل 01 مارچ 2022ءناصر خان
رائے عامہ کی سکرین پر صرف دو ہی موضوعات گرم ہیں۔ تحریک عدم اعتماد اور وزیر اعظم کا دورہ روس ۔ اسی میں یوکرائن ، روس، چین اورامریکہ اور اس کے اتحادی بھی سرد و گرم بحث کا حصہ ہیں۔ وزیر اعظم کو وزارت خارجہ اور کہیں اور سے بھی ایڈوائس کی گئی تھی کہ اس دورے سے قبل رُک جائیں ، سوچ لیںکہ روس کے پڑوس میں حالات خاصے کشیدہ ہیں۔ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ مگر جب وزیر اعظم نے طے کر لیا تو اسے بیلنس کرنے کے لیے پاکستانی حکام اسی دوران امریکہ کا دورہ
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
ذکر ایک پولیٹیکل سائنٹسٹ کی کتاب کا!
اتوار 20 فروری 2022ءناصر خان
80کی دہائی تھی ۔ پنجاب یونیورسٹی کا شعبہ سیاسیات ذہین اور لبرل پروفیسرز سے چمک دمک رہا تھا۔ حامدقزلباش، حسن عسکری صاحب ، مشاہد حسین سید ، پروفیسر خالد محمود اور سٹائلش اینڈ Articulate سجادنصیر صاحب اور فاروق حسنات اس کہکشاں کے نمایاں ستارے تھے۔ جب ہم اس ڈیپارٹمنٹ میں حصول علم کی تلاش میں پہنچے تو ہمارے حصے میں جو پروفیسرز وقت نے عطا کیے ان میں ڈاکٹر حسن عسکری صاحب ، پروفیسر سجاد نصیر صاحب اور ڈاکٹر فاروق حسنات ہمیشہ یاد رہنے والے ہیں۔ کسی نہ کسی جہت اور وجہ سے ان سب سے رابطہ رہتا ہے۔ اس
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
باتیں آفاقی صاحب کی۔۔۔اور یادیں ہماری
اتوار 06 فروری 2022ءناصر خان
یادوں کے ہجوم شاید اس لیے دل کے قریب ہوتے ہیں کہ اُن تک دوبارہ ہاتھ نہیں پہنچتا۔نارسائی کا یہ کرب کبھی سوہان روح بھی بن جاتا ہے۔ آکاس بیل کی طرح جذبوں کو ہر طرف سے گھیر لیتا ہے۔کچھ چہرے،اُن کی آوازیں،کچھ ہستیاں اور محفلیں یادوں میں اس طرح گھل جاتے ہیں کہ کوئی بھی شاید انہیں الگ نہیں کر سکتا۔خاک میں کیا کیا صورتیں کھو گئیں۔پچھتاوے دامن سے لپٹ سے جاتے ہیں کہ کچھ وقت اور ان کے ساتھ گزر جاتا تو کیا حرج تھا۔ایسا ہی ایک چہرہ ہے علی سفیان آفاقی صاحب کا۔ 2015ء کی بات ہے۔میرے
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
بات زلف کی نہیں ۔۔۔۔ بات رُخسارکی ہے !
اتوار 30 جنوری 2022ءناصر خان
کیونکہ ہم سب اُلجھ گئے ہیں۔ سوسائٹی تو ہمیشہ سے الجھن کا شکار تھی مگر اب ریاست بھی الجھی ہوئی ہے ۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر تیرے جیالے اور میرے جانباز چلے آرہے ہیں ۔ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان پر لیکچر دیتے ہوئے جب بات 71 سے 77 اور پھر اس کے بعد پر پہنچی تو میں رُک سا گیا ۔ شاید پھر سب کچھ بدل گیا۔ سوشل میڈیا پر اتنا دھواں ، اتنا غبار اور سب کو اتنا خمار ہے کہ صحیح بات کرنا اور کہنا ذرا اوکھا لگتا ہے ۔ سوال ہی سوال ہیں اور جواب ؟نہ
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے