واشنگٹن ( ندیم منظور سلہری سے ) وائٹ ہاؤس اور پنٹاگون کے درمیان افغانستان اور شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے صدر ٹرمپ کی ٹویٹ فارن پالیسی پر تحفظات بڑھتے جا رہے ہیں ۔دفاعی ماہرین کا کہنا ہے صدر ٹرمپ نے اندرون ملک کانگریس اور پنٹاگون دو محاذوں پر جنگ چھیڑ رکھی ہے اگر صورتحال یہی رہی تو بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے جس کا فائدہ روس اور چین کو ہو گا۔ پہلے ہی شٹ ڈاؤن کی وجہ سے امریکی معیشت بُری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔ معروف خاتون صحافی کارلا بیب کا کہنا ہے کہ ابھی تک پنٹاگون کو صدر کی جانب سے کوئی ایسا حکم نہیں ملا کہ افغانستان سے فوجوں کے انخلا کا عمل شروع کیا جائے ۔ سابق وزیر دفاع جم میٹس نے بتایا ہے کہ اگر امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا عمل شروع کیا جائے تو اس کیلئے چار سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ پنٹاگون کی ہائی کمان کا کہنا ہے صدر ٹرمپ کے ٹوئٹر پیغامات سے کنفیوژن پیدا ہو رہی ہے ۔ ہمیں اتحادی ممالک کیساتھ روابط پیدا کرنے میں ایک لمبا عرصہ لگا ہے ۔یہ کیسے ممکن ہے ہم اتحادی ممالک کو نظرانداز کر کے افغانستان اور شام کی سرزمین کو دہشتگردوں کے حوالے کر دیں۔ پروفیسر جوزف رائٹ کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان کیخلاف جو ٹویٹ کئے تھے اس پر بھی پنٹاگون نے ناراضی کا اظہار کیا تھا لہذا مجبوراً پنٹاگون کے ترجمان کو صدر ٹرمپ کے بیان کی نفی کرتے ہوئے پاکستان کے حق میں بیان دینا پڑا ۔ کسی بھی معاملے میں وائٹ ہاؤس اور پنٹاگون ایک پیج پر نہیں۔ اگر صدر ٹرمپ نے اپنا جارحانہ رویہ تبدیل نہ کیا تو پھر ان کو مواخذے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔میرا نہیں خیال صدر ٹرمپ دوسری ٹرم کیلئے دوبارہ وائٹ ہاؤس آئیں ۔ان کا دور الجھنوں ،افراتفری ، میں نہ مانوں اور ایک ضدی شخص کے حوالے سے یاد رکھا جائیگا۔