المناک خبر پڑھی اور ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ فیس بْک کا پرت پرت پلٹا، مبادہ کہ کسی غلط فہمی کا مظہر ہو۔ اپنے روابط کی ہر دوسری پوسٹ اشکبار احساسات کا گِریہ تھی اور مردِ درویش کی مراجعتِ الی اللہ کی موَیَد۔۔۔! رؤف بھائی کی رحلت نے رْلا دیا۔ موت سے کسی کو مَفر ہے نہ رْستگاری ۔بے شک جو آیا اس نے جانا ہے اور جو کِھلا، اسے مْرجھانا ہے۔ پیدائش اور تدفین کے درمیانی وقفے کو کھیل تماشے سے تعبیر کیا گیا ہے قدرت کے قوانین اٹل ہیں۔ میرے رب کا فرمان ہے’’ بے شک روئے زمین پر سب کا انجام فنا ہے اور بقا صرف تمہارے رب عظیم کی بزرگ و برتر ذات کو حاصل ہے۔‘‘ دو ماہ ہوئے تونسہ میں ہوں۔ گاؤں میں اپنے زرعی فارم پر مقیم۔ روائیتی مصروفیات کے محور پر سرگرداں یا کچھ عائلی عوامل اور کہیں زرعی مخمصے، دوستوں سے دوری کی رہی سہی کسر کورونا قدغنوں نے پوری کر دی ہے مگر اس عرصہ کے دوران شاید ہی کوئی ہفتہ گزرا ہو کہ روف بھائی نے فون پر رابطہ نہ کیا ہو۔ عموما" ہر تین چار دن بعد، میری سماعت، ان کے فون کی گھنٹی اور " میرانی بھائی السلام علیکم " کی زوردار گونج سننے کی عادی ہو چکی تھی، متجسس اور منتظر بھی۔ اپنائیت اور محبت سے معمور اس عزت افزائی اور کرم فرمائی پر میں ہمیشہ ان کا سپاس گزار رہا۔ ذاتی معاملات سے سماجی ، سیاسی اور علاقائی احوال تک وہ کھل کر بولتے اور بولتے چلے جاتے۔ ان کے سوالات اور خیالات بڑے معلومات افزا ہوتے تھے اور کبھی کبھی اظہارِ دلگرفتگی بھی کہ ملک میں مصلحت کے نام پر منافقت اور خدمتِ خلقِ خدا کی آڑ میں خود غرضیوں کے اژدھے پْھنکار رہے ہیں۔ ملک کے حالات پر مضطرب تھے مگر مایوس نہیں۔ جمہور اور جمہوریت کی تعظیم، عوام اور رائے عامہ کی تکریم انکے سیاسی نظریات کے نمایاں نِکات تھے اور ان عناصر سے متشکل خالصتا" جمہوری نظامِ حکومت ان کے افکار کا اساسی تصور اور تگ و دو کا مستقل مِشن رہا۔ کسی بھی موضوع پر گفتگو کرتے تو دلائل و براہین کے انبار لگا دیتے تھے۔ صاحبِ مطالعہ تو وہ تھے ہی، مگر زندگی کے مشاھدات اور معمولات کی بھٹی نے بھی انہیں کندن بنا دیا تھا۔ قدرت نے انہیں یاداشت کی کمال قوت بخشی تھی۔ قومی سیاست کی تاریخ اور حالات و حوادث پر رؤف طاہر صاحب کو گہری دسترس حاصل تھی۔ کونسل آف نیشنل افئرز (CNA) کے ساتھ ان کی وابستگی اور ہفتہ وار نشستوں میں باقاعدگی بے مثال تھی۔ حالاتِ حاضرہ پر تبصرے اور تجزیے ہوں یا مختص و متعین موضوعات پر اظہارِ خیال، کسی ممتاز قومی شخصیت کے خطاب اور سوال و جواب کا موقع ہو یا قومی اور بین الاقوامی سطح کے ماہرین کے ساتھ تبادلہ خیالات، ہر طرح کے قال و مقال میں رؤف طاہر صاحب کی گفتگو التفات اور ارتعاش کا سبب بنتی کہ منجمد مزاج ممبران بھی شریکِ بحث ہو جاتے تھے۔ انتقال سے دو روز پہلے رؤف بھائی کا فون آیا تو ہمکلام ہوتے ہی کہا " میرانی بھائی ! لگتا ہے کونسل آف نیشنل افئرز کو بھی ظالم کورونا نے آ لیا۔ لگ بھگ رْبع صدی سے سرگرمِ عمل فورم کو تعطل آشنا ہوئے اب رْبع برس ہونے کو ہے۔ اکثر احباب سی این اے اجلاسوں کا اجرا چاہتے ہیں۔ کورونا ایس او پی اپنا کر ہفتہ وار مجالس کے احیا کی ترکیب نکالی جائے"۔۔۔۔ میں نے حامی بھری تو کھکھلا اٹھے اور لاہور لَوٹنے کی تاریخ پوچھنے لگے۔ چاہت و چاؤ کی عجب کیفیت تھی۔ کیا پتہ تھا کہ محبت اور ملائمت سے معطر لب و لہجے اور اپنائیت سے لبریز روف بھائی کی یہ باتیں طویل رفاقت کا اختتام ہیں۔ اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں عجب المیہ ہے کہ ابھی چند ماہ ہوئے، سی این اے پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کی طویل رفاقت سے محروم ہوئی۔ پروفیسر ڈاکٹر احسن اختر ناز کی مفارقت بھی زیادہ پرانی بات نہیں۔ جانے والے سب دوستوں کو روف بھائی اکثر یاد رکھتے اور کہا کرتے تھے کہ فورم کے زیراہتمام سی این اے کے مرحوم ساتھیوں کی یاد میں بڑے پیمانہ پر ایک تعزیتی تقریب کا انعقاد ہونا چاہئے۔ مرحومین کی فہرست میں مذکورہ دو ڈاکٹرز صاحبان کے علاوہ، صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی، جسٹس کے ایم صمدانی، ڈاکٹر انور سدید، بریگیڈئیر ظفراقبال، حسنین جاوید، فاروق نثار، کرنل اکرام اللہ، پروفیسر طارق احمد اور اب صاحبِ مشورہ برادرم رؤف طاہر بھی شامل ہیں۔ رؤف صاحب اپنے افکار، نظریات اور خیالات کے حوالہ سے کھلی کتاب کی مانند بڑے واضح تھے مزاجا" نہایت سادہ اور طبعا" بہت معصوم…ان کی زبان اور ضمیر، سوچنے اور کہنے میں کوئی تفاوت تھا اور نہ قول و فعل میں کہیں تضاد۔۔۔۔ڈنکے کی چوٹ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے اور ببانگِ دہل، دل کی باتیں زبان پر لے آتے تھے. موقع و محل اور مصالح کی مْقتضیات سے ماورا وہ اپنے بیانئے کی بھرپور وکالت کرنے کی خْو رکھتے تھے۔ بارہا یوں ہوا کہ مجلس نشین شرکاء گفتگو کو خفا کر بیٹھتے تھے۔ سی این اے کی نشستوں میں بھی کئی دوست آزردہ خاطر ہوئے اور رؤف صاحب کے تلخ لب و لہجے کے باعث فورم سے کنارا کشی اختیار کر لی۔ ایسے مواقع کا منظر عموما" بہت جلد موقوف ہو جاتا تھا۔ دل کا سچا اور من کا اجلا انسان لمحات بھر میں برف کی طرح پگھل کر تلافیء مافات کا مجسمہ دکھائی دیتا تھا۔ "یار معاف کر دو" حضور! دیکھیں نا میں ہاتھ جوڑتا ہوں، میری غلطی ہے۔ رؤف صاحب کے انتقال پر اپنی چالیس سالہ رفاقت کا تذکرہ کرتے ہوئے سید ارشاد احمد عارف بہت غمگین اور دل گرفتہ لگ رہے تھے۔ موجودہ سیاسی کشمکش میں دونوں دوستوں کے خیالات میں بْعدالمشرقین کا فرق رہا مگر باہم اس قدر شیروشکر اور قریب تر، گویا کہ یک جان دو قالب۔ دونوں سے میرا تعلق ہمیشہ بھائیوں سے بھی بڑھ کر رہا اور میں نے دونوں کو ہر حال میں باہم سراپااحترام و تکریم پایا۔ اپنے سینئرز میں سے جو بحمدللہ حیات ہیں، الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمان شامی، عطاء الحق قاسمی، سجاد میر اور کئی دیگر شخصیات کے وہ بہت گرویدہ تھے۔ ڈاکٹر امان اللہ ملک کو خراجِ تحسین پیش کئے بغیر میری معروضات شاید تشنہ لب رہیں۔ گزرنے والے دو تین سال اس حال میں گزرے کہ ڈاکٹر صاحب اور روف بھائی میں چولی دامن کا ساتھ رہا گویا کہ من تْو شْدم، تْو مَن شدی، من تن شدم تْو جاں شْدی تا کَس نہ گوید بعد ازیں ، من دیگرم ، تْو دیگری خامہ و خیالات رؤف بھائی کے ذکر و یاد میں کھوئے تھے کہ ایک اور ہولناک خبر نے ھلکان کر دیا۔ جناب محمد یاسین وٹو بھی اس دنیا میں نہیں رہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔