سیدنا امام حسین علیہ السلام مقام رضا پہ فائز تھے ۔ اﷲ تعالی کے حضور آپ علیہ السلام کو وہ مقام قرب تھا جو مقام مقربین بارگاہ الہی میں بہت ہی کم بندگان خاص کو نصیب ہوتا ہے ۔ اﷲ تعالی کے حضور آپ کی قبولیت کا یہ عالم تھا کہ آپ علیہ السلام کی پیدا ئش کے وقت سے ہی امام الانبیاء صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبان اطہر سے اعلان فرمایا دیا کہ ‘‘الحسن و الحسین سیدا شباب اھل الجنہ کہ حسن و حسین علیہما السلام جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں ۔اور عزت ووقار کے تمام اعزازات و معیارات آپ کی شخصیت میں بدرجہ اتم موجود تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام جب اٹھا ئیس رجب المرجب کو مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہو ئے توآپ یزید کے تمام ارادوں سے باخبر تھے ۔ جب مکہ مکرمہ تشریف لے آئے تو یزید کے تمام ارادے اور ناپاک عزائم کھل کر آپ کے سامنے آشکار ہو گئے اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی سیدنا امام حسین علیہ السلام نے کربلا کا رخ کیا کیونکہ آپ حق الیقین کی اس منزل پر فائز ہو چکے تھے کہ اگر دین اسلام کی بقا و احیاء کے لیے اپنی جان کو قربان بھی کرنا پڑجائے تو اس سے دریغ نہیں کرونگا ۔ 2محرم الحرام کو امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام کربلا پہنچے تو وہیں آپ کو روک لیا گیا ۔قرائن و شواہد سے امام حسین علیہ السلام کو معلوم ہوگیا کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں تک پہنچنا تقدیر کا حکم تھا آپ علیہ السلام نے احباب کے لشکر کو یہیں خیمے لگانے کا حکم دیا ۔وقت گزرنے کے ساتھ یزید ی بدسلوکی بھی بڑھتی چلی گئی ۔ ابن سعد نے نہر فرات کے قریب اپنا لشکر جمادیا اور سات محرم الحرام سے پانی بند کر دیا گیا ۔ یہ لشکر اپنے پرورگار کے حکم کی تعمیل اور عبادت وریاضت میں مشغول رہا امام حسین علیہ السلام نے اپنے تمام احباب کو بار بار تلقین فرمائی کہ آپ میں سے جو واپس جانا چاہتا ہے واپس چلا جائے کیونکہ یہ لوگ میرے خون کے پیاسے ہیں مگر آپ کے لشکر میں موجود تمام احباب نے جا ن قربان کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ امام عالی مقام کا ہرہر لمحہ یاد الہی میں بسر ہورہا تھا۔مگر دوسری طرف پیاس کی شدت سے ننھے ننھے شہزادے پھول کی پتیوں کی طرح کملا رہے تھے اوریزیدی لشکر کی طرف سے باربار بیعت کے پیغامات آرہے تھے ۔شب عاشور کو امام حسین علیہ السلام نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اسلام کی بقا یزید کی بیعت نہ کرنے میں ہے ۔اور اگر آج میں نے اس ظالم کی بیعت کر دی تو قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے ظلم سہنا اور شریعت کی مخالفت کو دیکھ کر چپ رہنا شریعت کا حکم بن جائے گا ۔ آپ نے تمام اہل خانہ کے سامنے امام الانبیاء صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے والد گرامی جناب امیر المومنین کرم اﷲ وجہہ کی تمام پیشین گوئیاں بھی بیان فرمادیں ۔ امام حسین علیہ السلام کو یقین کامل تھا کہ اب وقت شہادت قریب ہے آپ نے عزم واستقامت کا مظاہرہ کر کے اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے شجر اسلام کی جڑوں کو مضبوط کر دیا۔ یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ سیدنا امام حسین علیہ السلام پر پانی کی بندش بھی سید امام حسین علیہ السلام کے لیے ایک امتحان تھا مگر آپ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت پہ عمل کرتے ہوئے اﷲ تعالی کی رضا پہ عمل کیا ۔ جب نمرود نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ جلائی اور آپ علیہ السلام کو آگ میں پھینکنے کا ارادہ کیا تو حضرت جبریل علیہ السلام اﷲ تعالی کے خلیل حضرت سیدنا ابرا ہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ اﷲ تعالی کی بارگاہ میں دعا کریں کہ اﷲ تعالی آپ کو اس سے نجات عطا فرمائے تو سیدنا ابرا ہیم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ میرا رب میرے حالات کو مجھ سے بہت بہتر جانتا ہے اور آپ نے نجات کے لیے دعا نہیں مانگی بلکہ اﷲ تعالی کی رضا پہ راضی رہے ۔ اﷲ تعالی کو اپنے خلیل کی یہ ادا پسند آئی تو اﷲ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سر پر ہمیشہ کے لیے انسانیت کی امامت کا تاج سجا دیا ۔ یہی وجہ تھی کہ سیدناامام حسین علیہ السلام بھی اﷲ تعالی کی رضا پہ راضی رہے کیونکہ بطور انعام اﷲ تعالی نے آپ کوجو جنتی نوجوانوں کی سرداری پہلے ہی عطا فرما دی تھی ۔اور تاریخ اس بات کو بھی نہیں بھول سکتی کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بچپن میں پیاس کی شدت سے اپنی ایڑیوں سے رگڑا تو اﷲ تعالی نے اپنے نبی کی آل کی عزت کی لاج رکھتے ہو ئے اپنی قدرت کاملہ سے پانی کا چشمہ جاری فرمادیا تھا۔یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ آج اس کے محبوب امام الانبیاء صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی آل کے چشم و چراغ پانی کی التجا کرتے اورپانی کا چشمہ نہ ابلتا ہاں یہ مقام رضا تھا کہ آج حسین ابن علی علیہ السلام ایسی تاریخ رقم کرنے تشریف لارہے تھے کہ قیامت تک امت مسلمہ اس پہ فخر کرنا تھا میدان کربلا میں سیدنا امام حسین علیہ السلام کے خدمت میں جنات کا سردار حاضر ہوا اور عرض کی کہ میری فوج میں ہزارہا جنات موجود ہیں اگر آپ پسند فرمائیں تو میں نہر فرات کو زمین کے اندر اندر سے آپ کے خیموں تک لے آؤ ں ؟ امام حسین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ائے جنات کے بادشاہ! آپ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ میں جنتی نوجوانوں کا سردار ہوں؟ اور اگر میں چاہوں تو حوض کوثر کو اپنی خیموں میں لاسکتا ہوں مگر آج میں اسلام کے احیاء اور سربلندی کے لیے کربل کی زمین کو اپنے مقدس لہو سے سیراب کرنے آیا ہوں ۔ پیاسا حسین کو کہوں اتنا تو بے ادب نہیں لمس لب حسین کو ترسا ہے آب ریت پر امام حسین علیہ السلام نے راہ عزیمت کو خود اختیار فرمایا اور اس راہ کا انتخاب کیا جس کا انتخاب اولوالعزم انبیاء و رسل علیہم السلام نے فرمایا تھا ۔ کیونکہ آپ جانتے تھے شجر اسلام کو اس وقت مقدس لہو سے سیراب کرنے کا وقت ہے اور ہر قسم کی مصلحت ورعایت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امام حسین علیہ السلام نے رزم گاہ شہادت میں قدم رکھا۔ یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ قوموں کی تاریخ بے بسی کے آنسؤوں سے نہیں بلکہ شہداء کے مقدس لہو سے لکھی جاتی ہے ۔ منہ سے اک بار لگا لیتے جو مولا پانی دشت غربت میں نہ یوں ٹھوکریں کھاتا پانی کون کہتا ہے کہ پانی کو ترستے تھے حسین ان کے ہونٹوں کو ترستا رہا پیاسا پانی