مکرمی !صدر مملکت عارف علوی اور الیکشن کمیشن کے مابین اتفاق رائے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں آٹھ فروری 2024ء جمعرات کو عام انتخابات کرائے جائیں گے۔۔عدالت عظمیٰ کے آٹھ فروری کو عام انتخابات کرانے کے حکم کا عمومی طور پر خیر مقدم کیا گیا ہے اور اس سے ملک کے سیاسی مستقبل سے متعلق اچھی توقعات وابستہ کی گئی ہیں۔لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آئین کی رو سے انتخابات تو وقت پر ہونے چاہئیں لیکن مقررہ مدت سے اوپر وقت گزرنے کے بعد ہرانتخابات کے انعقاد میں تاخیرکی وجہ سے آئین کی خلاف ورزی پرکسی ذمہ دار کا محاسبہ کیا جائے گا؟۔'' عدالت عظمی کے فیصلے میں آئین کی خلاف ورزی کرنے والے کسی فرد یا ادارے کی نشاندہی اور واضح تعین سے مکمل احتراز اور گریز کیا گیا حالانکہ مستقبل میں آئینی خلاف ورزیوں کے سامنے بند باندھنے کے لیے ضروری تھا کہ آئین کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والوں کا واضح طور پر تعین ہی نہ کیا جاتا بلکہ ان کو قرار واقعی سزا بھی سنائی جاتی تاکہ آئندہ ایسی حرکت کرنے سے پہلے بار بار سوچا جاتا مگر عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کسی کو سزا سنانا تو دور کی بات ہے، کسی ذمہ دار کی نشاندہی یا اس کو تنبیہ تک کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی اس سے آئین شکن عناصر کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور نظریہ ضرورت کے پروان چڑھنے کے امکانات روشن تر ہو جاتے ہیں۔اب جب کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ سامنے آ گیا ہے، سب سے زیادہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کے کندھوں پر آ پڑی ہے کہ وہ آئینی تقاضوں اور ملک و قوم کے مفاد کے پیش نظر آٹھ فروری کے انتخابات کو بہر حال صاف، شفاف، غیر جانبدارانہ، منصفانہ اور تمام فریقوں کے لیے قابل اعتماد بنائے اور کسی بھی غیر متعلقہ ادارے کی انتخابات اور اس کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوششوں کو کسی بھی صورت کامیاب نہ ہونے دے۔ ورنہ ملکی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کوئی بھی انتخابات عوام، رائے دہندگان اور سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا؟ (جمشیدعالم صدیقی، لاہور)