گزشتہ چند برسوں سے بھارت میں ہجومی تشدد کے واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں اور یہ ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ وہ ہجومی تشدد کے سنگین اور دل دہلا دینے والے واقعات کا مشاہدہ کررہا ہے۔ جہاں تک ہجومی تشدد کا سوال ہے یہ خاص طور پر مقدس گائے کے گوشت کے اطراف و اکناف گھومنے والا مسئلہ ہے۔ سیاسی مسئلہ کے نتیجہ میں ہجومی تشدد کے واقعات اکثر پیش آرہے ہیں۔ مسلمانوں اور دلتوں کو اس کی مار برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔ دی انڈیا اسپیڈ کے ڈیٹا کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ہجومی تشدد کے واقعات میں سال 2014 سے اضافہ ہوا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہجومی تشدد یا لنچنگ کے 90 فیصد متاثرین مسلمان یا دلت تھے۔ ہجومی تشدد کے بدترین واقعات میں محمد اخلاق، کمسن حافظ جنید، علیم الدین انصاری، 15 سالہ امتیاز انصاری، اونا میں دلتوں کے ساتھ مار پیٹ شامل ہیں۔ ایک اور سطح پر ہجومی تشدد کا واقعہ اْس دوران پیش آیا جب ممتاز سماجی کارکن سوامی اگنی ویش کو برسرعام مارا پیٹا گیا ان کی توہین کی گئی۔اب ہندوستان میں کسی بھی واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینا بڑا آسان ہوگیا۔ واقعات کی تفصیلات منظر عام پر آنے سے قبل ہی اسے فرقہ وارانہ رنگ دے دیا جاتا ہے جبکہ حقائق جاننے سے پہلے ہی جعلی سماجی آوازیں شروع ہو جاتی ہیں۔اس کی بدترین مثال مہاراشٹرا کے پال گھر کے قریب واقع گڈ چینال میں پیش آیا ۔ہجومی تشدد کا وہ واقعہ ہے جس میں دو سادھوں اور ان کے ڈرائیور کو بیدردی سے ہجوم نے مار مار کر قتل کردیا۔ وہ بیچارے اپنی زندگی کی بھیک مانگتے رہ گئے لیکن کسی نے بھی ان کی ایک نہ سنی نتیجہ میں دو سادھو اور ڈرائیور اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ واضح رہے کہ پال گھر ممبئی سے 110 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔جیسے ہی اس المیہ کی خبر عام ہوئی بی جے پی لیڈروں نے فوری طور پر اس جرم کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دینا شروع کردیا۔ نالن کوہلی نے ایک جرمن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مذکورہ بات کہی۔ بی جے پی کے ترجمان سمیت پاترا نے آزادانہ نظریات کی حامل سیکولرافراد کے خلاف تنقید شروع کردی۔ پاترا کا کہنا تھا کہ ہجومی تشدد میں دو سادھووں اور ان کے ڈرائیور کی ہلاکت جیسے واقعہ پر یہ لوگ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ پال گھر واقعہ دیکھتے ہی دیکھتے میڈیا اور سوشل میڈیا پر چھا گیا۔ حکومت مہاراشٹرا (شیوسینا + این سی پی + کانگریس) واقعہ کی سچائی پر ڈٹی رہی اور زائد از 100 ملزمان کو گرفتار کرلیا جن میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔دلچسپی کی بات یہ ہے کہ گاوں کے مقامی ادارہ پر بی جے پی کا کنٹرول ہے اور اس ادارہ کی سربراہ (سرپنچ) چترا چودھری بی جے پی کی ایک لیڈر ہیں۔ حکومت مہاراشٹرا جہاں کیس کے حقائق کی بنیاد پر کارروائی میں مصروف ہے وہیں اس نے افواہیں اور جھوٹ پھیلانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا سخت انتباہ بھی دیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے اور افواہیں پھیلانے والوں کو ہرگز نہیں بخشے گی۔قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے والوں کے ظلم و جبر انتہائی صدمہ انگیز ہے۔ پچھلے چند برسوں کے دوران ہجوم کی جانب سے قانون اپنے ہاتھوں میں لینا یا قانون سے کھلواڑ کرنا ایک معمولی بات ہوگئی ہے۔ اس رجحان کی حقیقی وجوہات کئی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم وجہ اس قسم کی گھناونی حرکتوں میں ملوث افراد کو سزا دینے سے متعلق مناسب میکانزم کا فقدان ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہجومی تشدد برپا کرنے والوں کی اکثریت کے حکمراں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور اس قسم کے تکلیف دہ واقعات میں اپنے بدترین کردار کے باوجود انہیں اعزازات سے نوازا گیا۔ اس سلسلہ میں ہم محمد اخلاق کی ہجومی تشدد میں شہادت کی مثال پیش کرتے ہیں۔ ان کے قتل کیس کے ایک مجرم کی جب پولیس حراست میں بیماری کے باعث طبعی موت ہوتی ہے تو اس وقت کے مرکزی وزیر مہیش شرما وہاں پہنچ کر اس مجرم کی نعش کو قومی پرچم میں لپیٹتے ہیں۔ اسی طرح علیم الدین انصاری کو جب ہجومی تشدد میں قتل کردیا جاتا ہے اس کیس میں 8 ملزمین کو ضمانت حاصل ہو جاتی ہے تب مرکزی وزیر جینت سنہا ان کی بڑے فخر سے گلپوشی کرتے ہیں اس طرح کی حرکتوں سے دوسروں کو کیا پیغام پہنچتا ہے۔تشدد میں شدت یا اضافہ کی دیگر وجوہات میں مجموعی سماجی بوکھلاہٹ اور مایوسی بھی شامل ہے کیونکہ فی الوقت عام طور پر زندگی بہت مشکل ہوگئی ہے۔ بی جے پی کی حکمرانی نے معاشرہ میں عدم برداشت کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ جہاں اختلافات رکھنے والوں کو ہندو مخالف اور قوم مخالف قرار دیا جاتا ہے۔سوامی اگنی ویش کو جنہوں نے اندھی عقیدت و توہم پرستی پر تنقید کی اور قدیم ہندوستان میں پلاسٹک سرجری اور امرناتھ میں برفانی بابا کی روحانی نوعیت سے متعلق بیانات کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ برسر عام بری طرح مارا پیٹا گیا ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا گیا۔ سب سے اہم مسئلہ وہ فرقہ وارانہ ذہنیت ہے جسے حکمراں بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس نے فروغ دیا وہ ہمیشہ ایسے کسی بھی واقعہ میں کود پڑنے کے منظر ہوتے ہیں جسے فرقہ وارانہ رنگ دیا جاسکتا ہے یا اقلیتوں کو الگ تھلگ کیا جاسکتا ہے۔چند نیوز چینلز جو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کی سیاست کے لاوڈ اسپیکر کا کردار ادا کررہے ہیں اور زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کررہے ہیں اْس سے معاشرہ میں نفرت بڑی تیز رفتاری سے پھیل رہی ہے۔ اب تو اس نفرت کو پھیلانے کے لئے سوشل میڈیا نیٹ ورکس کا بے تحاشہ استعمال ہو رہا ہے اور ان کی جھوٹ سے سارا معاشرہ متاثر ہے۔ ہجومی تشدد کے خلاف خصوصی قانون لانے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ اس طرح کی گھناونی حرکتوں و تشدد میں ملوث ہیں انہیں سخت سے سخت سزائیں دیئے جانے کی ضرورت ہے ورنہ لوگ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیتے رہیں گے۔ ٭٭٭٭٭