ہر کوئی ایک ماہر معاشیات ہے اپنے گھریلواخراجات کے مطابق ماہانہ بجٹ بنانے والی اْمور خانہ داری کی ماہر گراہست عورت سے لے کر دودھ کی فروخت کیلئے گائے بھینس بکریاں چرانے والے ایک ڈیری فارم مالک اور بڑی عمارتیں تعمیر کرنے والے بلڈرز کیلئے ساز و سامان بنانے والے چھوٹے اور نئے صنعتکار تک ہر کوئی اپنی جگہ ایک ماہر معاشیات ہوتے ہیں۔ یہ سب کے سب اپنے متعلقہ شعبوں میں مقررہ قانون و قواعد کے علاوہ تجارت پر ٹیکس ، سمجھوتوں کے روایات اور معاہدوں کی ممکنہ حد تک پابندی کرتے ہیں۔ لیکن ان کے اپنے ہم منصوبوں اور گاہکوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہوتے ہیں۔ یہ سب جانے پہچانے ہیں بلکہ درحقیقت اچھی طرح معروف ، جانے پہچانے ہیں۔ ان میں سب سے بہترین جانے پہچانے اور معروف شے دولت مالیہ ہوتی ہے۔ ہماری کہانی میں اہم کردار اور متعلقہ ممتاز شخصیات ہی جانے پہچانوں اور معروف کے بارے میں بہترین فیصلے کرسکتے ہیں۔ تاہم ناٹک یا کہانی کے اہم کردار محض غیر معروف اور انجانوں کے سبب غلط بھی ہوسکتے ہیں۔ جانے پہچانے انجانے اور نامعلوم اور انجانے غیرشناسا دونوں ہی انھیں غلط ثابت کرسکتے ہیں لیکن ناٹک کے اہم کردار کچھ وقت تک نامعلوم ، غیرشناسا اور انجانوں پر بھی اپنی مہارت و بالادستی کے دھاگ مسلط کرسکتے ہیں۔ اس کہانی کے کردار کسی ریاست کے چیف منسٹر بھی منتخب ہوسکتے ہیں اور تو اور ریاست پر حکمرانی کا انتہائی متاثرکن ریکارڈ بھی پیش کرسکتے ہیں۔ پرانی کہانی کے ایک ماہر و کہنہ مشق کردار کی حیثیت سے وہ جانی پہچانی شے رقم مالیہ ہی نہیں بلکہ دوسرے تمام جانے انجانوں کا بہترین انتظام کرسکتے ہیں۔ یہ اْس وقت تک ہوسکتا ہے جب تک وہ اپنے مخصوص جانے پہچانے اور انجانے حدود سے باہر نہ جائیں جہاں گڑبڑ اور پریشانی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ یہ گربڑ و پریشانی مارکٹ کہلائی جاتی ہے۔ کیونکہ ایک دوسرے سے بے تعلق لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد گاہک کے مارکٹ کے بارے میں کسی فرد واحد کی طرف سے اْلجھن خوف و غیریقینی کے ماحول میں محرکات کے تحت مجبور ہوکر فیصلے کئے جاتے ہیں تو یہ محض معمولی گڑبڑ و پریشانی نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک بہت بڑی پریشانی ہوتی ہے۔ (رابرٹ برنس کی نظم کے مصرعہ کے مطابق ) ’’چوہوں اور انسانوں کے بعض اچھی طرح سوچے سمجھے منصوبے‘‘ بھی مارکیٹ میں کبھی کبھار فائدہ کے بجائے نقصان دہ اور پریشان کن شکل میں منظرعام پر آیا کرتے ہیں ، جس میں حجم و پیمانہ گہرا تعلق خاطر رکھتے ہیں۔ ایک متوازن بجٹ پر کوئی امتحان دینا حکومت کے لئے بجٹ بنانے کی طرح کئی سنگین چیلنجز پیش نہیں کرسکتا۔ بالکل اسی طرح کسی ریاست چلانے ( حکمرانی کرنے) کی صورت میں ایسے بے شمار اور دشوارکن چیلنجز نہیں اْبھرتے جو کسی ملک پر حکمرانی کی صورت میں اْبھرتے ہیں۔ نریندر مودی 12 سال تک گجرات کے چیف منسٹر رہے ہیں اور اب وزیراعظم ہیں۔ ان کی وزیر فینانس نرملا سیتارامن دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی فارغ التحصیل ہیں۔ معاشیات میں ایم اے کی ڈگری رکھتی ہیں۔ یہ دونوں آپس میں یہ سوچتے بھی ہیں اور کیوں نہ سوچیں ؟ کہ وہ ( مودی اور سیتارامن ) دونوں ہی انتہائی قابل ماہرین معاشیات ہیں اور ہندوستان کی معیشت کو موثر انداز میں صحیح راستہ پر چلانے کی اہلیت و صلاحیت رکھتے ہیں۔ وزیراعظم کے دفتر سے فیصلہ کئے جارہے ہیں۔ وزارت فینانس کی طرف سے عمل آوری کی جارہی ہے۔ دونوں طرف باہمی شکوک و شبہات ہیں۔ محاورتی طور پر استعمال کئے جانے والے دو بڑے چینی جادوگروں کے دفتروں کے درمیان الزام تراشیوں کے تبادلہ کا کھیل جاری ہے۔ الغرض اس چھوٹی سی کہانی کے دو بڑے کردار اب محض بنیادی غذائی ضرورت غریبوں اور متوسط طبقہ کی پیاز جیسی معمولی شئے کی آسمان چھوتی قیمت پر کنٹرول کے لئے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ پیاز کا ہر متبادل ایک کے بعد دیگر غلط ثابت ہوگیا۔ تو پھر ہمارے پاس کیا بچا …؟ این ایس ایس او کے مطابق گھریلو تصرف میں کمی کے علاوہ دیہی اجرتوں میں انحطاط ہوا ہے۔ بالخصوص کسانوں اور دیگر پیداواری قیمتیں مائل بہ زوال ہوئی ہیں۔ یومیہ اْجرت پر مزدوری کرنے والوں کو مہینے میں 15 دن سے زائد کام نہیں مل رہا ہے۔ منیریگا( مہاتما گاندھی قومی دیہی ضمانت روزگار اسکیم ) کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ پائیدار و غیرپائیدار دونوں ہی اشیائے تصرف کی فروخت ہورہی ہیں۔ تھوک قیمتوں کااعشاریہ 1.92 فیصد تک بلندی پر پہنچ چکا ہے۔ قیمت صارفین کی شرح افراط زر 4.62 فیصد پر جاپہنچی ہے۔ تمام تھرمل پلانٹس پر پلانٹ بوجھ کا عنصر تقریباً 49 فیصد ہوچکا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ برقی کی مانگ نہ ہونے کے سبب نصف تھرمل پیداوار بند ہورہی ہے۔ حکومت سمجھ رہی ہے کہ وہ آنیوالے المیہ کو ٹالنے کی تمنا کرسکتی ہے۔ حکومت کی یہ غلطی ہے کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی اور ماضی میں کئے گئے ناقابل مدافعت فیصلوں جیسے نوٹ بندی ، جی ایس ٹی ، ٹیکس دہشت گردی ، تحفظ پسندی اور وزیراعظم کے دفتر کے ارتکاز پر مبنی اقدامات کی دفاع کررہی ہے۔ 8 نومبر 2016 ء کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ اس سے ایک آدمی کی غلطی سے ہونے والا قیامت خیز سانحہ منظرعام پر آیا۔ لیکن کئی مرتبہ خبردار کئے جانے کے باوجود حکومت اس قسم کے فیصلوں سے باز نہیں آئی۔ اقتصادی ماہرین نے حکومت کو معیشت کے نااہل منتظمین قرار دیا تھا۔ ہندوستانی معیشت اہل و قابل ماہرین معاشیات کی مدد و مشورہ کے بغیر ہی چلائی جارہی ہے۔ ڈاکٹر اروند سبرامنیم ان میں بس ایک اور آخری (ماہر معاشیات) ہیں۔ کسی پروفیسر کے بغیر ایک ڈاکٹریٹ کا پروگرام چلایا جانا یا پھر کسی ڈاکٹر کے بغیر ایک نازک و پیچیدہ سرجری کا تصور …! کیونکر ممکن ہوگا۔ قابل و باصلاحیت ماہرین معاشیات کے بغیر معیشت چلانا اور وہ بھی نااہل منتظمین کی طرف سے یہ کیسے ممکن ہوگا …لیکن ایسا ہی ہورہا ہے۔(بشکریہ: سیاست نئی دہلی)