ہندوستان میں بی جے پی اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان جو جنگ جاری ہے وہ براینڈ کی طرح ہے اور یہ جنگ غلط وجوہات کی بناء پر لڑی جارہی ہے۔ ایودھیا میں وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے بھومی پوجن کئے جانے کے کچھ دن بعد جنتادل (یو) اور آر جے ڈی کے لیڈروں کا کہنا تھا کہ وہ بھی سیتامڑھی کو جانکی جنم بھومی کے طور پر فروغ دیئے جانے کے خواہاں ہیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہاں ایک سیتامندر تعمیر کیا جائے، اْسی طرح جس طرح بڑے پیمانے پر ایودھیا میں رام مندر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یہ باتیں اس وقت سے شروع ہوئیں،جب 5 اگست کو تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے جئے شری رام کے نعرے لگائے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس معاملہ میں ملک کی بیشتر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوششیں کررہی ہیں۔ جہاں تک شمالی ہند کا سوال ہے اسے حقیقت میں سیاسی ماحولیاتی تقلید یا نقل کا مقام کہا جاسکتا ہے۔ وہاں سب سے پہلے ہندتوا کو تھام لو جیسے نظریہ کی نقل کی گئی، اگر دیکھا جائے تو شمالی ہند کے علاقہ کو کلاسک برانڈنگ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اب اسی علاقہ میں برانڈ کی جنگ کی طرح بی جے پی اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان برانڈ کا کھیل شروع ہوا ہے۔ جہاں تک برائنڈ کی مسابقت کا سوال ہے۔وہ ایک دوسرے کے خلاف ٹیگ لائن کو چلا رہے ہیں، امیت شاہ کی بی جے پی سرفہرست ہے۔ بی جے پی کا ہندتوا ہے اور جو آج کا مارکٹ لیڈر برانڈ ہے۔ دوسری طرف کئی اور طرح کے برانڈز ہیں جنہیں ہم کانگریس، جانیودھاری، قسم، آپ کی ہنومان چالیسی چانٹنگ، شاہین باغ کو نظر انداز کرنے والی ایک قسم، آر جے ڈی۔ جے ڈی یو کی سیتامڑھی مندر قسم اور ایس پی۔ بی ایس پی کی پرشورام قسم کہہ سکتے ہیں۔ اس مسابقت میں گرما گرم مارکیٹ پلیس جو ہندوستان کی جمہوریت کی طرح نہیں بلکہ صرف وہی کمپنیاں جو منفرد کام کرکے دکھاتی ہیں وہی اجارہ داری قائم کرسکتی ہیں اور برتری منواسکتی ہے اور اگر نہیں تو پھر آپ کو عصری نہیں سمجھا جاتا۔ ’’کس نے تالے کھولے؟‘‘ یہ ایسا سوال تھا کانگریس کے کئی لیڈروں نے 5 اگست سے قبل کئے وہ دراصل 1985 کے دوران ایودھیا میں راجیو گاندھی کی جانب سے بابری مسجد کے دروازے کھولے جانے اور 1989 میں شیلا نیاس کی اجازت دیئے جانے کا حوالہ دے رہے تھے۔ ان کانگریسی قائدین کا مایوسانہ دعویٰ دراصل نرم ہندتوا کی برانڈنگ کرنا تھا۔ اگرچہ ان لوگوں نے اپنے برانڈ پوزیشن کو واضح نہیں کیا لیکن یہ بتانے کی کوشش کی کہ آج جس مندر کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، اس کا کریڈٹ راجیو گاندھی کو جاتا ہے۔ ویسے بھی کمپیوٹر کو ایجاد کرنا کافی نہیں ۔کوئی بھی کمپنی کو آج یاد نہیں کرتا۔ ایک تو برانڈ لیڈر وہ ہوتا ہے جو صارفین کے ذہنوں پر حکمرانی کرتا ہے ، یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ الرائس نے اپنی کتاب ’’دی بیٹل فار یوور مائینڈ‘‘ میں لکھا ہے اور اس میں جو کچھ لکھا ہے وہ اس کا بی جے پی اور ایودھیا پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ جب آپ مارکیٹ لیڈر ہیں تو پھر ہندتوا کا قزاق شدہ ورڑن اپناتے ہو۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ آپ برگر کنگ کی بجائے برگر سنگھ کو اپنا رہے ہو۔ اس معاملہ میں ہم کانگریس کے اہم لیڈر اور سابق سفارتکار ششی تھرور کی مثال پیش کرسکتے ہیں۔ ششی تھرور نے تک 2017 میں انتباہ دیا تھا کہ کانگریس کو بی جے پی کی نقل نہیں کرنی چاہئے، ایسا کرنے سے ہم اور ہماری اہمیت صفر ہو جائے گی۔ اسرائیل میں پچھلے انتخابات کے دوران تمام سیاسی جماعتیں ایسا لگ رہا تھا کہ صحیح سمت کی جانب رواں دواں ہے لیکن بعد میں وہ حقیقت کہیں گم ہوگئی۔ پچھلے سال میں نے یہ استدلال پیش کیا تھا کہ دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال ہندوستانی سیاست میں ایک نئی مرکزیت کی پیشکش کررہے ہیں،جو ہندوازم، قوم پرستی، سماجی آزاد خیالی اور بہبود کا ایک مرکب ہے لیکن اروند کجریوال اس مرکز سے دور ہوگئے۔ ان کی نظریاتی جمناسٹکس ایک جوکھم سے بھری رسی پر ٹکی ہوئی ہے۔ جب تک خود احتسابی کا میکانزم نہیں ہوگا اور حقیقی متبادل کا فقدان پایا جائے گا،وہ جمہوریت کے لئے ٹھیک نہیں رہے گا۔ کیاچ اپ پالیٹیکس کا کھیل کھیلنے کی بجائے ہندوستان کی اپوزیشن کو ایک اہم برانڈ کی حیثیت سے خود کو دوبارہ منوانا ہوگا۔ اس سلسلہ میں ہم تشہیری دنیا کی مثال پیش کرسکتے ہیں اور اس سلسلہ میں Avis بمقابلہ ہرٹز برانڈ کے رینٹل کار کے شعبہ میں ٹکراؤ کو دیکھتے ہیں۔ Avis نمبر دو کے مقام پر ہے اور ہرٹز کو مارکیٹ لیڈر کہا جاتا ہے۔ برسوں Avis نے اپنے پیغام میں خود کو ہرٹز کی طرح قرار دیا تھا لیکن جب اس نے کہا کہ ہمارا مقام دوسرا ہے، ہماری خدمات غیر معمولی ہیں، ہماری کاریں صاف ستھری اور بہترین حالت میں ہیں تب پہلی مرتبہ اس کمپنی نے اپنی آمدنی میں بے تحاشہ اضافہ درج کیا کیونکہ اس نے خود کو ہرٹز کے خلاف بتایا تھا ناکہ ہرٹس جیسا۔ ہر بزنس میں ترقی کے لئے آپ کو نئے صارفین یا موجودہ صارفین کی جانب سے مصنوعات کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو یقینی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک سیاسی جماعت کو بھی اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بی جی پی نہ صرف اپوزیش کو دیوار کے ساتھ لگا رہی ہے بلکہ اس کی ذیلی تنظیمات بھی مسائل پیدا کر رہی ہیں ۔اصل میں آر ایس ایس۔ بی جے پی و دیگر ہم خیال گروہ کو منظرِ عام پر آنے کا کوئی شوق نہیں تھا، اور اسی وجہ سے لوگوں کی رائے کا بھی وہ کچھ احترام نہیں رکھتے تھے۔تاہم نہرو، اندرا گاندھی اور دیگر بھارتی رہنماوں کی طرح مودی نے کشمیر کے لوگ جو کشمیر کے حقیقی آقا ہیں، ان کی رائے کے بارے میں کچھ نہیں سوچا۔ شیخ عبداللہ نے پایا کہ وہ ان کے ساتھ نہیں کھڑے۔ انہوں نے ایک ایسے حل کی تلاش کے لیے تحرک لیا جو نہ صرف خود انہیں بلکہ پاکستان اور بھارت کو بھی قابل قبول ہو۔۔کمیونسٹ پارٹی بھارت (مارکسی) کے رہنما محمد یوسف تاریگی نے 17 ستمبر کو نئی دہلی میں کہا کہ 5 اگست سے وادی میں عائد کی جانے والی پابندیوں کے باعث کشمیری عوام ’سست رو موت‘ مر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ وہ علیحدگی پسند بھی نہیں ہیں۔نہ ہی 3 بار کشمیر کے وزیر اعلیٰ اور ایک بار یونین وزیر رہنے والے ڈاکٹر فاروق عبداللہ علیحدگی پسند ہیں۔ تامل رہنما وائکو نے انہیں چنئی میں خطاب کرنے کی دعوت دی۔ سرکاری مؤقف یہ تھا کہ ڈاکٹر ایک آزاد شخص ہیں، جبکہ حقیقی معنی میں وہ ایک قیدی ہی بنے ہوئے تھے۔