گھر بنانا اب بہت ہی آسان’’یہ لائن یا تو کسی ٹی وی کے اشتہار اخبار کی سرخی یا شہر کے کسی چوک میں لگے ہوئے‘ بل بورڈ پر کسی پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹی کی طرف سے ملے گی اور جن کے پاس اپنا گھر نہیں ہوتا ان کی نظر پڑتے ہی دل میں ایک خیال ضرور آتا ہے کہ کاش یہ اتنا ہی آسان ہوتا کیونکہ ذاتی گھر کی خواہش کسی کو نہ ہو ایسا ممکن نہیں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گھر بنانا بہت مشکل ہے کیونکہ گھر بنانے کے لئے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے اور غریب آدمی جس کی ذریعہ آمدن ہی اتنا ہو کہ مشکل سے گزر بسر ہو رہی ہو اس کے لئے تو یہ ناممکن سی بات ہے کہ وہ ذاتی گھر کا سوچ سکے۔ حتیٰ کہ اوسط طبقہ کے افراد کے پاس بھی کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ بڑی سرمایہ کاری یک مشت کر سکے، اس لئے گھر بنانے کا آغاز سوچتے سوچتے وقت نکلتا جاتا ہے اور زندگی کی اور بہت ساری الجھنیں ساتھ ہونے کی وجہ سے ذاتی گھر والا منصوبہ شروع نہیں ہو پاتا۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان میں گھر کی تعمیر کے لئے بینک سے قرض لینا بھی آسان نہیں ایک تو شرح سود بہت زیادہ، دوسرا اس کے لئے شرائط پوری کرنا کسی مصیبت سے کم نہیں، اسی لئے پاکستان میں بینک سے قرضہ لینے کا رجحان بہت کم ہے۔ دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان میں صرف 10.25فیصد لوگ بینک سے قرضہ حاصل کرتے ہیں جبکہ یورپ میں یہ تعداد 90فیصد تک ہے اور امریکہ میں 80فیصد اور ملائیشیا میں 30فیصد ہے اسی طرح بھارت میں 10فیصد کے لگ بھگ لوگ بنک سے گھر کے لئے قرضہ لیتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور 330ارب روپے کا کنسٹرکشن پیکیج دیا ہے، اس سے اب گھر بنانے پر قرضہ لینے کی طرف ایک مثبت رجحان پیدا ہو گا کیونکہ حکومتی کنسٹرکشن پیکیج کے تحت نیا پاکستان ہائوسنگ پروجیکٹ کو 30ارب روپے دیے گئے ہیں جس سے پہلے ایک لاکھ گھروں کو فی گھر 3لاکھ کی سبسڈی دی جائے گی اور گھر کی تعمیر کے لئے بنک سے قرضہ لینے پر بھی سہولت دی گئی ہے اور 5مرلہ گھر پر صرف 5فیصد شرح سود رکھا ہے اسی طرح 10مرلہ گھر پر 10فیصد شرح سود پر قرضہ ملے گا۔ اس پیکیج کے تحت تعمیراتی سرگرمیوں پر 90فیصد تک ٹیکس کی چھوٹ ہو گی اور جنرل ٹیکس کو 15فیصد سے کم کر کے 2فیصد کر دیا ہے اسی طرح سریا اور سیمنٹ کے علاوہ تعمیراتی سامان پر ود ہولڈنگ ٹیکس کو ختم کر دیا گیا ہے اس کے علاوہ قرض حاصل کرنے کے لئے دوسری شرائط میں بھی نرمی کی گئی ہے۔ این او سی کو ختم کیا گیا ہے اور رجسٹریشن کے متعلقہ تمام لوازمات کو پورا کرنے اور اگر کوئی ایشو آئیں تو ان کو بھی ایک ٹائم فریم کے اندر حل کرنا ہو گا اور اپنا منصوبہ 31دسمبر 2020ء تک رجسٹر کروانا ہو گا اور 31دسمبر 2022ء تک مکمل کرنا ہو گا اس کی رجسٹریشن کے لئے تمام صوبوں میں ون ونڈو آپریشن کیا جائے گا اور سب کچھ آن لائن ہو گا۔ اس عوامی پیکیج کا فائدہ یہ ہے کہ اب جو افراد بینک سے قرضہ لینے کے لئے اپنے گھر کی تعمیر کرں گے ان کو قرض کی واپسی آسان اقساط کے ساتھ 20سالوں میں کرنی ہو گی اس طرح سے جتنا ماہانہ کرایا ہوتا تقریباً اتنی ادائیگی سے آخر کار گھر اپنا ہو جائے گا۔ اس پیکیج کے تحت ایک قومی رابطہ کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو اس سارے نظام کی نگرانی کرے گی۔ جہاں اس پیکیج سے عوام کو گھر بنانے میں آسانی ہو گی اس کے ساتھ ملکی معیشت کو بھی خاطر خواہ فوائد حاصل ہوں گے کیونکہ پاکستانی تناظر میں دیکھا جائے تو تعمیرات اور زراعت ایسی صنعتیں ہیں جو ملک میں زیادہ تر لوگوں کو ملازمت دیتی ہیں ان میں تعمیر ایک ایسی صنعت ہے جو دوسری صنعتوں کے بوجھ کو اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شعبہ سے دوسری بہت سی صنعتیں وابستہ ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک گھر یا عمارت کو بنانے کے لئے متعلقہ مواد کی ضرورت ہوتی ہے جس میں سیمنٹ ریت ‘بجری ‘پتھر ‘اینٹ‘ لوہا‘ سٹیل‘ لکڑی ایلومینیم‘بجلی کا سامان سینٹری کی متعلقہ اشیا اور کچن کے سامان سے باغبانی کے سامان تک نیز تعمیر کے بعد آرائشی اشیا جیسے فرنیچر‘ پردے، قالین اس طرح کی درجنوں صنعتیں ہیں جو اس سے منسلک ہوتی ہیں۔ ایف بی آر کی ایک رپورٹ کے مطابق تعمیراتی کام سے پاکستان میں 40سے زیادہ صنعتیں منسلک ہیں۔ اس لئے تعمیراتی شعبہ سے کاروبار میں تیزی کے ساتھ روزگار کے مواقع پیدا ہوںگے اور دیہاڑی دار طبقہ لے لے کر تمام دوسرے متعلقہ افراد کو فائدہ ہو گا اس تعمیراتی پیکیج کے تحت سی ڈی اے (کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے اور حال ہی میں سی ڈی اے میں 3دن کی نیلامی میں 17ارب روپے کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ سرمایہ کاری کے ماہرین نے بتایا ہے کہ 3دن میں پیداہونے والی رقم عام طور پر 2سال میں جمع ہوتی ہے۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ حکومت کو اس میں ایک پیسہ بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ 17ارب روپے کی اتنی بڑی رقم سے معاشی سرگرمی پیدا کی جائیں گی۔ جس سے ملازمت کے مواقع پیدا ہوں گے۔ آج کل پاکستان کو اس طرح کے اقدامات کی بہت ضرورت بھی ہے کیونکہ ملکی معیشت پر کورونا کی وجہ سے بہت بوجھ پڑا ہے اور کاروبار بند ہونے کے ساتھ بے روزگاری میں بھی اضافہ ہونے کا خدشہ ہے اس لئے تعمیراتی شعبہ پر مناسب توجہ دینے سے عوام کے ذاتی گھر کے خواب پورا ہونے کے ساتھ ملکی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے اور تعمیراتی صنعت میں نہ صرف مقامی بلکہ غیر ملکی سرمایہ کار بھی دلچسپی لیتے ہوئے سرمایہ کاری کریں گی۔