مکرمی ! قائد کا فرمان ہے ’’اپنی تنظیم اس طور کیجئے کہ کسی پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہ رہے یہی آپ کا واحد اور بہترین تحفظ ہے اور اپنے حقوق اور مفادات کے تحفظ کیلئے وہ طاقت پیدا کیجئے کہ آپ اپنی مدافعت کر سکیں‘‘ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ اپنی یادداشت میں لکھتے ہیں کہ میں قیام پاکستان کے بعد ایک دفعہ ٹرین میں سفر کر رہا تھا۔ ٹرین میں بھارت سے آئے ہوئے چند لٹے پٹے اور مفلوک الحال مہاجرین بھی سفر کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک ٹکٹ چیکر ڈبے میں آیا اور مسافروں کے ٹکٹ چیک کرنے لگا۔ اس نے ایک بڑھیا سے ٹکٹ مانگا۔ بڑھیا نے بڑی لجاجت سے ٹکٹ چیکر سے کہا بیٹا ہم بھارت سے اپنا مال و دولت، عزت و عصمت سب کچھ لٹا کر پاکستان آئے ہیں ہمارے پاس کھانے پینے کو نہیں ٹکٹ کہاں سے خریدیں۔ ہمیں معاف کر دو۔قائد اعظمؒ لکھتے ہیں میں کچھ دور بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا وہ ٹکٹ چیکر مجھے چہرے سے نہیں پہچانتا تھا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ ٹکٹ چیکر اس موقع پر کیا کرتا ہے۔ بڑھیا کی بات سن کر ٹکٹ چیکر کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ بولا اماں جانتا ہوں کہ تم سچ کہہ رہی ہو۔ تم ہی بتائو ’’ٹکٹ نہیں کٹے گا تو ریل کیسے چلے گی جب ریل نہیں چلے گی تو پاکستان کیسے چلے گا‘‘ لہٰذا ٹکٹ تو ضرور کٹے گا، مگر ٹکٹ کی رقم میں اپنی جیب سے ادا کروں گا۔ قائد اعظم کے الفاظ ہیں ’’میں تحریک پاکستان کے ایسے مخلص اور گمنام سپاہیوں کو سلام پیش کرتا ہوں‘‘۔ (امتیاز احمد،لاہور)