تعلیم کا مقصد ہر دور میں نوجوان نسل کی اسطرح رہنمائی کرنا اور انہیں تیار کرناہوتا ہے کے وہ ہر آنے والی مشکل کا احسن طریقے سے سامنا کرتے ہوئے کوئی مثبت حل نکال سکیں لیکن پچھلے کچھ سالوں سے تعلیم ایک باقاعدہ دوڑ کی شکل اختیار کر چکی ہے اور ہر تعلیمی ادارہ دوڑ کا میدان. کووڈ 19 کے بعد اس دوار میں مزید تیزی آگئی ہیوہ ملک جہاں 76.38 ملین انٹر نیٹ استعمال کنندگان ہیں جو ملکی آبادی کا ایک تہائی سے بھی کم وہیں تعلیم کو انٹر نیٹ سے منسوب کرتے ہوئے طلبہ اور والدین کو نئی الجھنوں میں ڈالا گیا۔ کورس ورک سے زیادہ ریسرچ ورک پہ توجہ دینے کے لیے مختلف سرگرمیاں مرتب کی گئی،سگنلز کی کمی، کلاس کے دوران نیٹ کا منقطع ہونا, ناقابل فہم آواز اور ڈسٹورشن نے طلباء کا جینا محال کیے رکھا۔مسلسل ریسرچ ورک اور کمزور سگنلز نے ایک ٹینشن زدہ ماحول کی بنیاد رکھی جس سے طلبہ دماغی انتشار کا شکار ہو رہے ہیں معاشرتی دباؤ کے ساتھ علمی دباؤ طالبعلموں کے زہنی انتشار کو مزید بڑھا رھا ہے۔ آن لائن کلاسز میں درپیش آنیوالے مسائل اور کام کی زیادتی طلباء میں تعلیم سے دوری کا سبب بنتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کے آئے روز طلباء تعلیم ادھوری چھوڑ دیگر کاموں کی طرف متوجہ ہورہے ہیں یا پھر اپنے حق کے لیے ہڑتالوں اور ہنگاموں کا سہارا لینے پہ مجبور ہیں۔ مسلسل لکھنے کی وجہ طلبہ کی یاد کرنے کی صلاحیت مانند پڑ گئی ایسے میں فزیکل ایگزامز کا اعلان طلباء میں نہ صرف خوف و ہراس پیدا کر رہا ہے بلکہ انہیں زہنی مفلوج کرتے ہوئے تعلیمی میدان سے دور کرتا جا رہا ہے، لاہور میں طالبہ کی خود کشی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور ہمارے تعلیمی نظام پہ کھلا سوال، آئے روز ہونے والے سیاسی ہنگامے اور کرونا کی بگڑتی صورتحال بچوں کے ساتھ ساتھ انکے والدین کے لیے بھی بے چینی کا سبب بن رہی ہے، ملک بھر میں کروناایکٹو کیسز کی تعداد 35,000 سے زیادہ ہے اور نئی لہر چونکہ پہلی سے زیادہ خطرناک ہے اور مسلسل گھروں میں مقید رہنے کی وجہ سے قوت مدافعت میں بھی واضح کمی آئی ہے صرف امتحانات کے لیے تعلیمی ادارے کھولنا طلباء کے ساتھ زیادتی اور انکی جان خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے. فزیکل امتحانات کی بجائے بہتر تھا کے انکی ریسرچ کی سرگرمیوں کو مزید نکھارتے ہوئے انکی استعداد کے مطابق ریسرچ پروجیکٹ کروائے جاتے جنہیں اپنی صحت کو محفوظ بناتے ہوئے وہ گھروں میں بیٹھ کے احسن طریقے سے سر انجام دے سکتے تھے،وہ طلبہ جو دور دراز کے علاقوں سے حصول علم کے لیے اسلام آباد جیسے بڑے شہروں کا سفر کرتے ہیں اور ہاسٹلز میں رہتے ہیں عالمی وبا کے دنوں انکا سفر کرنا اور جائے علمی کے قرب و جوار میں رہتے ہوئے بازاری کھانے کھانا انکے لیے زہنی و جسمانی بیماری کا سبب بن سکتا ہے،اگر تعلیم کا مقصد طلباء کو ذہنی و جسمانی مریض اور دوڑ کے گھوڑے بنانا ہے تو یقیناً ہمارا مستقبل تاریک ہے. آن لائن کلاسز میں درپیش مسائل، سیاسی ہنگامے اور وبا کے دنوں میں فزیکل امتحانات کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے، آجکل جب ہر شہر میں ایک طرف کرونا کا راج ہے تو دوسری طرف روز ایک سیاسی ہنگامہ آرائی یہ تمام عوامل ملکر طلبہ کی ذہنی استعداد کار کم کر رہے ہیں طلبہ جب تک ذہنی طور پہ سکون میں نہیں ہونگے تب تک انکی تعلیم بے مقصد رہے گی اور وہ کسی طور اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکیں گے، طلبہ کی حوصلہ افزائی اورانکے روشن مستقبل کے لیے ضروری ہے کے اوپن بک ایگزامز کا بندوبست کیا جائے یا پھر ان سے ریسرچ کی سرگرمیاں ہی کروائی جائیں، قوم کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں دینے کے لیے ضروری ہے کے مستقبل کے معماروں کی زہنی و جسمانی صحت کو محفوظ بنایا جائے. (مصباح بشیر چوہدری پاکپتن)