حضرت مجدد الف ثانیؒنے سب سے پہلے دو قومی نظریہ پیش کیا جبکہ شاہ ولی اللہ، سر سید احمد خان علامہ اقبال اور دیگر علمائے کرام نے نظریہ پاکستان کی وضاحت کی۔ بر صغیرپاک و ہند کے زیادہ ترمسلم ادارے اسی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئے اور کئی تحریکیں اسی نظریے کے پرچار کے لیے معرض وجود میں آئیں۔قائد اعظم نے قرار دار لاہور 23، مارچ 1940ء میں اسی نظریے کی بنیاد پر علیحدہ ملک کا تصور پیش کیا۔ یوں تو تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز 23 مارچ، 1940ء کے جلسے کو قرار دیا جا سکتا ہے مگر اس کی اصل شروعات تاریخ کے اس موڑ سے ہوتی ہے جب مسلمانان ہند نے کانگریس سے اپنی راہیں جدا کر لی تھی۔تحریک پاکستان کی سات جدوجہد کے بعد آخر کار انگریزوں اور ہندوؤں کی سازشوں اور پر زور مخالفت کے باوجود 14اگست 1947ء کو پاکستان ظہور میں آیا۔ جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں نے حضرت قائد اعظمؒ کی قیادت میں قیام پاکستان کیلئے بے شمار اور عظیم قربانیاں دیں۔ لاکھوں مسلمانوں نے اس مقصد کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ قیام پاکستان کا منظر راقم الحروف نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ 1946 کے انتخابات بھی راقم الحروف نے سٹوڈنٹ ورکر کے طورپر گھر گھر جا کر لوگوں کو مسلم لیگ کو ووٹ دینے کی ترغیب دی۔ کانگریس کی قیادت گاندھی، پنڈت نہرو اور پٹیل کا خیال تھا کہ پاکستان زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گا۔ کانگریس کی قیادت نے قیام پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا۔ کانگریس، پنڈت نہرو، اندرا گاندھی، لال بہادر شاستری اور نرسہماراؤ کی قیادت میں پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہی اور اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کیلئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اپنی جانوں کی قربانی دے کر مسلمانوں نے یہ خطہ زمین اس لیے حاصل کیا تھا کہ ان کے خیال میں اپنے مذہب کی بنیاد پر زندگی گزارنے کے لئے ایسی سرزمین کی ضرورت ہے جہاں ان کی ایک منفرد شناخت ہو یہی وہ انقلابی سوچ اور تحریک تھی جس نے قومیت کی بنیاد پر تقسیم کے اس تصور کو باطل قرار دیا جو مغربی مملکت کے نظام میں موجود ہے۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے ہر خطاب میں اس بات کو بار بار دھرایا کہ قوم کی کسی بھی تعریف کے اعتبار سے مسلمان ایک الگ قوم ہے جسے اپنے لئے ایک الگ سرزمین چاہئے جہاں ان کا راج ہو اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ ایسی سرزمین جہاں انہیں مکمل طور پر اپنے مذہب اور قدروں کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہو، جہاں وہ اپنی مذہبی، معاشرتی، معاشی، سماجی اور سیاسی زندگی کو اپنے مزاج اور تصورات کے مطابق گزار سکیں۔لہذا 1940ء کے اجلاس میں اپنے صدارتی خطبے میں اس بات پر زور دیا تھا کہ مسلمان صرف اس لئے الگ قوم نہیں ہیں کہ وہ اسلامی نظریہ حیات کے تحت زندگی گزارنے کا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ اس لئے بھی کہ ان کا الگ سماجی تصور ہے اور وہ ایک منفرد اور اعلیٰ ترین تہذیب کے وارث ہیں۔ اس دلیل کی بنیاد پر دو قومی نظرئیے کی سچائی اور حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے برصغیر کو دو علیحدہ مملکتوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ آزادی کی یہ نعمت ہمیں چاندی کی طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کی گئی بلکہ مادر وطن کے حصول کے لئے ہم نے اپنی جان و مال، عزت و آبرو کا نذرانہ پیش کیا اس لئے آزادی کی نعمت کے تحفظ کے لئے ہمیں ہر مرحلے پر مسلسل جدوجہد کرنی چاہئے۔ ہم آزادی سے محبت کرنے والی قوم ہیں۔ اس لئے ہی ہم اپنے تمام تر وسائل بھرپور صلاحیتوں اور روح کی گہرائیوں سے اپنی نظریاتی سرحدوں اور ملکی سالمیت کی حفاظت کا فریضہ سنبھالنا چاہئے ہمیں اس سلسلے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑنا چاہئے۔ ہمارے دشمن قائداعظم محمد علی جناح کی ان خواہشات اور خدمات کی نفی کرنا چاہتے ہیں جس کی بنیاد پر ملک حاصل کرنے کی جدوجہد کی گئی تھی اور جس پر وطن عزیز کے استحکام اور سلامتی کا دارومدار ہے۔اس لئے ہمیں یہ دن حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر منانا چاہیے۔ سیاسی قوتوں کا اس موقع پر اتحاد و اتفاق ضروری ہے۔ یہ ہمارے لئے وطن عزیز کو عظیم سے عظیم تر اور مضبوط ترین بنانے کیلئے عہد کرنے کا بھی دن ہے۔ ایسا مضبوط کہ کوئی اسکی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ کر سکے۔ قیامِ پاکستان کے وقت برصغیر پاک و ہند میں مسلمان ایک قوم کی حیثیت رکھتے تھے اور اْس قوم کو ایک ملک کی تلاش تھی جب کہ آج 72 برس بعد ملک موجود ہے مگر اِس ملک کو قوم کی تلاش ہے۔ ہم نے انہی باہمی اِختلافات کے باعث آدھا ملک کھو دیا۔ آج آدھا ملک موجود ہے مگر کس قدر دکھ کی بات ہے کہ قوم مفقود ہے۔ ہم دوبارہ اس قوم کو وحدت میں پرونا چاہتے ہیں۔ ہم اس ملک کو مسلمانوں کی اْمیدوں کے مطابق بنانا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں کچھ جرات مندانہ کام کرنے پڑیں گے اور کچھ احتیاطیں برتنی پڑیں گی۔ ہمیں سنجیدہ ہو کر اس ملک میں جاری نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ پاکستانی قوم کو بے شعور بنا دیا گیا ہے۔ جمہوریت کے نام پر جو کچھ اس ملک میں ہوتا رہا ہے یہ کسی طرح بھی جمہوریت نہیں۔ قائداعظم ؒ نے فرمایا تھا کہ ’’عوام اپنی ذات اور عقیدہ صرف مسلمان لکھوائیں‘‘ پر عمل کرنا چاہیے۔