مکرمی !گزشتہ روز گھر سے کراچی کے لیے نکلا تو بس ڈرائیور نے تسکین قلب کے لیے بس میں کچھ سرائیکی گانے لگا رکھے تھے۔ گانوں پر فلمائے گئے سین بس میں لٹکی ایل سی ڈی پر نمایاں تھے۔ سین دیکھتے ہوئے کئی بار احساس ہوا کہ کہیں بس میں کوئی خاتون تو نہیں بیٹھی۔ حالات یہ ہیں کہ جس وسیب میں عشق ممنوع کا درس نہ صرف دیا جاتا تھا بلکہ وہ گھر کے ہر معزز نوجوان کے رگ و پے میں موجود ہوتا تھا۔ اپنے وسیب اور ثقافت کا احترام اور اس کی اصلی حالت میں بحالی سرائیکی وسیب کے لیے اس وقت بہت ضروری ہے۔ ثقافت کے احیاء کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو بھی اپنا بھرپور کردارادا کرنا ہوگا۔ خدارا ! سرائیکی شوبز کے لیے کوئی سنسر بورڈ تشکیل دیا جائے۔ انہیں تمیز اور تہذیب کا دائرہ کار دیا جائے۔ اگر معاشرے کو زیادتی اور ہراسانی جیسے واقعات سے بچانا ہے تو بے ہنگم فلمیں، گندے سین اور عشق و معشوقی کے نام پر ہیجان انگیزیوں کا سدباب کرنا بے حد ضروری ہے۔ گالم گلوچ اور غیر مہذب مکالموں پر مبنی فلموں اور ڈراموں پر پابندی عاید کی جائے اور ضابطہ اخلاق طے کیا جائے۔ سرائیکی وسیب میں تعلیم کی کمی کو پورا کرنے میں شاید ہم کبھی کامیاب ہوبھی جائیں تو یہ تعلیم کی جنگ ہم تربیتی محاذ پر آکر ہار بیٹھیں گے۔ وہ تربیتی محاذ یہی غیراخلاقی میڈیا ہے۔ ( عارف رمضان جتوئی، کراچی)