مکرمی !استاد قوموں کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ نسلوں کی سنوارنے کی ذمہ داری والدین سے زیادہ اساتذہ پر ہے ۔ استاد بچے کے ہر حوالے سے اس کی تربیت کرتا ہے اور اسے معاشرے کیلئے کارآمد بنانے کیلئے اپنی صلاحیتیں وقف کرتا ہے ۔ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو طلباء عدم برداشت کے حامل ہوتے ہیں ، ان کے اساتذہ کی تربیت میں کہاں کمی رہ جاتی ہے جو ان نوجوانوں کو تشدد کی جانب مائل کرتی ہے ؟ ۔ بہاولپور میں جنونی طالبعلم کے ہاتھوں قتل ہونے والے پروفیسر خالد حمید کا بظاہر کوئی قصور نہیں تھا لیکن جس طالبعلم نے انہیں قتل کیا اس کی ذہنی خلش کا ذمہ دار کون ہے ؟ جن جن اساتذہ سے وہ پڑھا ، جن والدین نے اس کی پرورش کی ، ان سے کہاں کوتاہی ہوئی؟ کہاں گئی وہ سلجھے ہوئے کردار کا مالک پیدا کرنے کی جستجو؟ اگرچہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اس قدر بڑھ چکا ہے کہ مرضی کے خلاف چھوٹی سے چھوٹی بات بھی تشدد کی جانب لے جاتی ہے ، لیکن اس کے باوجود یہ خطیب حسین نامی مذکورہ قاتل طالبعلم کے اساتذہ اور والدین کا فرض تھا کہ وہ اس پر نظر رکھتے اور اس کے ذہن کو بے راہرو ہونے سے بچاتے ۔ خطیب حسین کب ، کن ہاتھوں میں کھیلنے لگ گیا ، یہ کسی کو معلوم کیوں نہ ہو سکا؟ (محمد نورالہدیٰ)