اسلام صر ف ظاہری طہارت کا ہی حکم نہیں دیتا بلکہ باطن کی پاکیزگی بھی سکھاتا ہے ۔ اسلامی تعلیما ت میں ایک طرف جسمانی طہارت کے لیے وضو ، غسل اور تیمم کے احکام موجود ہیں تو دوسری طرف صفائے باطن اور تزکیۂِ نفس کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔فرائضِ نبوی میں سے ایک اہم ترین فریضہ تزکیہ کا ہے ۔حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی دعا قرآن پاک میں یوں بیان کی گئی ہے : اے ہمارے رب ! ان میں انہی میں سے ایک برگزیدہ رسول بھیج تاکہ پڑھ کر سنائے انہیں تیری آیتیں اور سکھائے انہیں یہ کتاب اور دانائی کی باتیں اور پاک صاف کردے ان کو ۔ بے شک توہی ہے بہت زبردست بڑی حکمت وا لا۔ (البقرہ : 129)اس آیتِ کریمہ میں جو فرائضِ نبوت بیان کیے گئے ہیں ان میں تلاوتِ آیات اورکتاب وحکمت کی تعلیم کے علاوہ پاک اور صاف فرمانا بھی ہے جسے تزکیۂِ نفس سے تعبیرکیا جاتا ہے جو کہ فیضِ نبوت ہے ۔ اور صوفیائے کرام اسی فیضِ نبوت کے امین ہیں ۔چنانچہ جسٹس پیر محمد کر م شاہ الازہری صاحب نے اسی آیت کی تفسیرمیں لکھا ہے : ’’اس رسول کے تین فرائض گنوائے جا رہے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ و ہ اللہ کی آیات پڑھ پڑھ کر سنائے دوسرا یہ کہ کتاب و حکمت سکھائے ۔ تیسرا یہ کہ اپنے تصرفِ روحانی سے دلوں کے آئینے کوجِلا دے اور روشن کرے تاکہ حقائق ومعارف ان میں جلوہ نما ہو سکیں۔‘‘ تزکیۂِ نفس کا یہ فیضان صحابہ کرام نے خاتم النبیین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت سے حاصل کیا اور پھر ان سے یہ فیض امت تک پہنچا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں صحبتِ صالحین پر بہت زوردیا گیا ہے ۔ صوفیائے کرام نے بھی اپنے پاس بیٹھنے والوں کو صفائے باطن اور طہارت ِقلبی کی تعلیمات دیں ۔ حسد ، بغض ، کینے اورریاکاری جیسی بیماریوں سے دلوں کو پاک کرنے اور اخلاص و نیاز کے ساتھ دلوں کو منورکرنے کادرس دیا ۔ صوفیائے کرام نے اپنے مریدین کو ہمیشہ نماز کی پابندی ، ذکرِ الہی ، نوافل ، تلاوتِ قرآن اور سنت کی پیروی کا درس دیا ۔ تزکیۂِ نفس کافریضہ سر انجام دینے والوں میں سے ایسی ہی ایک ہستی کا نام خواجہ اللہ بخش تونسوی رحمۃ اللہ علیہ ہے ۔آپ تونسہ مقدسہ کے مشہور صوفی بزرگ خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے ہیں ۔ آپ ماہِ ذوالحجہ 1241 ھ میں تونسہ میں پیدا ہوئے ۔ جب تعلیم حاصل کرنے کی عمر ہوئی تو خواجہ تونسوی نے مولوی محمد امین صاحب کے سپرد کر دیا جو کہ بہت با کمال عالم تھے ۔ ان سے آپ نے قرآن پاک کے علاوہ فارسی نظم اور صرف و نحو کی بھی تعلیم حاصل کی ۔ پھر حدیث کے دروس بھی انہی سے پڑھے ۔ علومِ ظاہری کی جب تکمیل ہوئی تو آپ کے داداجان نے سلوک و معرفت کی تعلیم دینے کے لیے اپنے پاس بلا لیا ۔ ابتداء میں خواجہ اللہ بخش تونسوی رحمۃ اللہ علیہ بڑی شان و شوکت والی زندگی بسر کیا کرتے تھے ۔ بڑے خوش لباس تھے اور سواری کے لیے بہترین گھوڑیا ں اپنے پاس رکھا کرتے تھے لیکن جب بڑے ہوئے تو ان چیزوں سے منہ موڑ لیا اورنہایت ہی سادہ سی زندگی گزارنے لگے ۔ آپ کے دادا نے آپ کو بچپن سے ہی نماز روزے کا پابند کردیا تھا عمر کے ساتھ ساتھ عبادت و ریاضت میں دلچسپی بڑھتی گئی ۔ حضرت شاہ سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کاجب وقتِ آخر قریب آیا تو خواجہ اللہ بخش تونسوی رحمۃ اللہ علیہ نے قدموں میں سر رکھ کرعرض کی : بابو! من از تو ہیچ چیزے دیگر نمی خواہم پس ہمیں می خواہم کہ نعلینِ فقیرانِ ترا راست کنم : بابو جی ! میں آپ سے اورکچھ نہیں چاہتا صرف اتنا چاہتاہوں کہ آپ کے فقیروں کی جوتیاں سیدھی کر دیا کروں ۔ یہ جملہ سن کر آپ کے دادا جان پر ایک کیفیت طاری ہوئی اور فرمایا : میں نے اپنی روح اس میں پھونک دی اور آپ کا وصال ہو گیا ۔ شاہ غلام نظام الدین صاحب نے آپ کے سر پر دستار باندھی اور آپ درگاہِ تونسہ کے سجادہ نشین مقرر رہوئے ۔ خواجہ تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کے سجادہ پر بیٹھنے کے بعد آپ نے ہندوستان کا سفرکیا اور مشائخِ سلسلۂِ چشت کے مزارات پر حاضر ہوئے ۔ بیکانیر کی ایک مسجد میں تین چار دن تک قیام کیا اور کثیر تعداد میں لوگ آپ کے حلقۂِ ارادت میں داخل ہوئے ۔ نئے مریدوں کوہدایت کی کہ نماز روزے کی پابندی کریں ۔ دہلی میں حضرت چراغ ِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ پر بھی قیام کیا اور شاہ جہاں آباد کا سفر بھی فرمایا جہاں امراء اور درباریوں نے بے پناہ اظہارِعقیدت کیا۔ آ پ نے بہت سی عمارات بھی تعمیر کروائیں جن میں زیادہ تر مساجد ، کنوئیں اور سرائیں تھیں اور ان تعمیرات کا مقصد یہ تھا کہ خانوادہ سے منسلک حضرات اور دیگر زائرین کو سہولت میسر رہے ۔ آپ کا اخلاق نہایت اعلیٰ تھا ۔ دشمن ہو یادوست جو بھی آپ سے شرفِ ملاقات حاصل کرتا آپ کے اخلاق کا اس کے دل پر گہرا اثر ہوتا ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتے غریبوں اور بے کسوں کی طرف خصوصی توجہ فرماتے ۔ایک ہندو آپ کے اخلاق سے اس قدرمتاثرہوا کہ اسلام کی دولت سے مالا مال ہو گیا اور آپ کی خدمت کرنے لگا آپ نے اس کا نام غلام رسول رکھا ۔اس نے نہ صرف زہد و تقوی میں کمال حاصل کیا بلکہ بڑے علومِ اسلامیہ میں بھی مہارت حاصل کی اوردرس و تدریس میں مشغول رہا ۔ ڈاکٹرخلیق نظامی صاحب نے لکھا ہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ اپنی مجلس میں فرمایا : ’’ خواجہ اللہ بخش صاحب کی نظر میں اہلِ دنیا کی ذرہ برابر بھی وقعت اور قد ر نہ تھی ۔ وہ بے حد غریب نواز تھے ۔ دنیا داروں کو بہت حقیر اور بے مقدار سمجھتے تھے اور اس معاملہ میں خواجہ اللہ بخش صاحب کے برابر کوئی فقیر دیکھا یا سنانہیں گیا ‘‘ آپ نے اصلاحِ احوال کی طرف بڑی توجہ دی اور بالخصوص علماء کی اصلاح پر بہت زور دیا کیونکہ آ پ کے خیال میں طبقۂِ علماء کی اصلاح سے مسلم معاشرے کا بڑا حصہ خود بخود صحیح راستے پر گامزن ہوجائے گا ۔ آپ ہی کے زمانے میں مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے باطل عقائد کی ترویج شروع کی اور بہت سے علماء کو مباحثہ کی دعوت دی تو آپ نے نہایت سختی کے ساتھ ان فتنوں کی تردید کی اور مسلمانوں کوگمراہ کن تحریکوں سے بچانے کے لیے اپنی کوششیں صرف کیں ۔ خواجہ اللہ بخش تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال 13ستمبر 1901ء مطابق 29 جمادی الاول 1319ھ کوہوا ۔