شیطان ، انسان کا ازلی دشمن ہے اور وہ ہمیشہ چاہتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا محبو ب بندہ نہ بنے لہٰذا وہ پہلے پہلے بندے کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں لگاتاہے جب وہ شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرلیتا ہے تو شیطان اُسے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس کرنے کی کوششیں کرتا ہے ۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کی وسعت کو بیان فرمایا ۔سورۃ الزمر کی آیت53میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے :’’(اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آپ فرمادیجئے !اے میرے وہ بند و جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کرلی ہے ۔تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بیشک اللہ سارے گناہ معاف فرمادیتاہے ، وہ یقینا بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے ‘‘۔اسی طرح ذخیرہ ٔ احادیث کریمہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے جگہ جگہ اپنی رحمت کو بیان فرمایا ۔چند احادیث مبارکہ نذرقارئین کرام ہیں ۔ ۱۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے اپنی کتاب میں لکھا اور وہ اپنی ذات کے متعلق لکھتا ہے جو اُس کے پاس عرش پر رکھی ہوئی ہے کہ میرے غضب پر میری رحمت غالب ہے ۔‘‘ (صحیح بخاری : 6969، صحیح مسلم : 2751) ۲۔امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے جن میں ایک عورت بھی تھی اور دودھ کی کثرت کی وجہ سے اس کی چھاتیاں بہہ رہی تھیں کیونکہ اس کا بچہ نہیں تھا جو اس کا دودھ پیتا وہ اپنا دودھ پلانے کی خاطر اسی بچہ کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑتی تھی چنانچہ جب وہ قیدیوں میں سے کسی کے بچہ کو پا لیتی تو اپنے بچہ کی محبت میں اسے لے کر اپنے پیٹ سے لگاتی اسے دودھ پلانے لگتی یہ دیکھ کر خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ کیا تمہارے خیال میں یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈالے گی؟ (یعنی جب یہ غیر کے بچے کے ساتھ اتنی محبت کرتی ہے تو کیا اس بات کا خیال کیا جا سکتا ہے کہ یہ اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی؟ )تو ہم نے کہا ہرگز نہیں ڈالے گی۔ بشرطیکہ وہ ڈالنے پر قدرت رکھتی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ عورت اپنے بچے پر جنتا رحم وپیار کرتی ہے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں پر اس سے کہیں زیادہ تم سے پیار کرتا ہے ۔ (صحیح بخاری: 5999، مسلم: 2754) ۳۔صحیح مسلم میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ’’بے شک اللہ پاک رات کے وقت اپنا دستِ قدرت پھیلا دیتاہے تاکہ دن میں گناہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرمائے اور دن میں اپنا دستِ قدرت پھیلا دیتا ہے تاکہ رات کے وقت گناہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرمائے یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو۔‘‘(مسلم:9572) ۴۔اِسی صحیح مسلم میں ہے :اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :’’اے میرے بندو! تم رات د ن گناہوں میں بسر کرتے ہواور میں گناہوں کو بخشتا رہتا ہوں۔ پس تم مجھ سے بخشش طلب کرتے رہو میں تمہیں بخشتا رہوں گا۔‘‘ (مسلم :7752) ۵۔حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ خاتم النبیین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ سے یہ روایت کیا:’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کیا ہے اور میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام کر دیا، لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو، اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو، سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں، سو تم مجھ سے ہدایت طلب کرو، میں تمہیں ہدایت دوں گا، اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں کھانا کھلاؤں، پس تم مجھ سے کھانا طلب کرو، میں تمہیں کھلاؤں گا، اے میرے بندو! تم سب بے لباس ہو سوائے اس کے جسے میں لباس پہناؤں، لہٰذا تم مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں لباس پہناؤں گا، اے میرے بندو! تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں تمام گناہوں کو بخشتا ہوں، تم مجھ سے بخشش طلب کرو، میں تمہیں بخش دوں گا، اے میرے بندو! تم کسی نقصان کے مالک نہیں ہو کہ مجھے نقصان پہنچا سکو اور تم کسی نفع کے مالک نہیں کہ مجھے نفع پہنچا سکو، اے میرے بندو! اگر تمہارے اول اور آخر اور تمہارے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ متقی شخص کی طرح ہو جائیں تو میری بادشاہت میں کچھ اضافہ نہیں کر سکتے اور اے میرے بندو! اگر تمہارے اول و آخر اور تمہارے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ بدکار شخص کی طرح ہو جائیں تو میری بادشاہت سے کوئی چیز کم نہیں کر سکتے ۔ اور اے میرے بندو! اگر تمہارے اول اور آخر اور تمہارے انسان اور جن کسی ایک جگہ کھڑے ہو کر مجھ سے سوال کریں اور میں ہر انسان کا سوال پورا کر دوں تو جو کچھ میرے پاس ہے اس سے صرف اتنا کم ہو گا جس طرح سوئی کو سمندر میں ڈال کر (نکالنے سے ) اس میں کمی ہوتی ہے ، اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لئے جمع کر رہا ہوں، پھر میں تمہیں ان کی پوری پوری جزا دوں گا، پس جو شخص خیر کو پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جسے خیر کے سوا کوئی چیز (مثلاً آفت یا مصیبت) پہنچے وہ اپنے نفس کے سوا اور کسی کو ملامت نہ کرے ۔‘‘(صحیح مسلم: 2577، ترمذی : 2495) نتیجہ یہ کہ اللہ تعالیٰ سے اچھاگمان(حُسنِ ظن)رکھنا واجب ہے ۔اس کی رحمت سے ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے ،وہ چاہے تو کسی کے ایک گناہ پر ایسی پکڑ فرمائے کہ ساری نیکیاں کم پڑ جائیں اور وہ چاہے تو کسی کو ایک نیکی پر اپنی رحمتوں سے ایسا نوازے کہ بڑے بڑے گناہوں سے درگزر فرمائے ۔اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے بندوں پر بے پناہ ہے لیکن اس سے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اب جتنے چاہو گناہ کرتے رہے ،بس ایک عمل کریں گے اور سب گناہ معاف ہوجائیں گے ،ایسا سوچنا غلط ہے ، ہمیں چاہیے کہ ہم گناہوں جتنا ممکن ہو بچیں ،چاہے وہ گناہ بڑا ہو یا چھوٹا۔اِس لیے اپنے گناہوں سے توبہ کرکے اللہ کے محبوب بندے بنیں ۔