کافی دنوں سے ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے سے مین سٹریم میڈیا خصوصاََ سوشل میڈیاپر بحث و مباحثوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، بل کے مخالف اور حمایتی اپنے اپنے دلائل کے انبار لگا رہے ہیں لیکن دونوں اطراف کے دلائل میں توازن دکھائی نہیں دے رہا خصوصاََ اس بل کے حق میں تحریک چلانے والے تو بس یہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح سے مذکورہ بل فوراََ سے پہلے اسی شکل میں نافذ کر دیا جائے ۔اس بات میں کو ئی شک نہیں پاکستانی معاشرے میں خواجہ سرائوں کی حالت بہتر نہیں۔ ہر کوئی ان کو اپنے مذاق کا نشانہ بنانا اپنا فرض سمجھتا ہے یہ مشاہدہ کی بات ہے کہ ہم نے جب اپنے مخالف کی تذلیل کرنی ہوتی ہے تو اسے ہم کھسرا یا خواجہ سرا کا لقب دے دیتے ہیںگویا ہم نے اس لفظ کو سماجی لحاظ سے ایک گالی بنا دیا ہے جن والدین کے گھر میںبد قسمتی سے ایسا بچہ پیدا ہوا جائے وہ والدین اپنے ہی بچے کو گھر سے نکال دیتے ہیںاسے خواجہ سرا کے گروکے پاس چھوڑ آتے ہیں۔گذشتہ دنوں کراچی کی ایک خواجہ سراڈاکٹر کا ٹی وی پر انٹرویو سن کر بے اختیارآنکھیں بھر آئیں جب انہوں نے بتایا کہ دس بارہ سال کی عمر میں ہی ان کے اپنے والدین نے انہیں خواجہ سرا ہونے کی وجہ سے گھر سے نکال دیا تھا یقیناََ ہمارے سماج کا خواجہ سرائوں کے حوالے سے یہ رویہ نہ صرف یہ کہ قابل مذمت ور قبیح جرم کے مترادف ہے ۔ اسی طرح کسی ٹی وی پروگرام میں ہی ایک خواجہ سرا نے بتایا کہ اسے بچپن میں گھر سے بے دخل کر دیا گیا اور پھر تقریباََبیس سالوںکے بعد جب وہ ایک شادی کے فنکشن میں ناچ رہا تھا تو اچانک اس نے اپنی ماں کو وہاں دیکھا جو اس دولہا کی ماں تھی جس کی شادی پر وہ ناچ رہا تھا یعنی وہ دولہا اس خواجہ سرا کا بھائی تھا ماں نے تو اسے نہ پہچانا لیکن وہ بد نصیب بے چارہ برسوں بعد اپنی ماں اور بھائی کو پہچا ن گیا اور دھاڑیں مار کر روتا ہواوہاں سے چلاگیا۔ جہاں تک مذکورہ ٹرانس جینڈربل کا تعلق ہے تو اس کے ذریعے خواجہ سرائوں کو بہت سے ایسے حقوق دینے کی ضمانت دی گئی ہے جو اس سے پہلے ان کو حاصل نہیں تھے مثلاََاس ایکٹ کے تحت انہیں تعلیم کے حصول جائدادوںکی خریدوفروخت کے حقوق ڈرائیونگ لائیسنس پاسپورٹ شناختی کارڈکے حصول سمیت بہت سے حقوق دے دیے گئے جو کہ قابل ستائیش بات ہے اسی طرح ملازمتوں میں خواجہ سرائوں کا تین فیصد کوٹہ بھی متعین کر دیا گیاہے چھوٹے قرضوں کی فراہمی اور فنی تعلیم کے حصول کے حوالے سے بھی خواجہ سرائوںکو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کی بات کی گئی ہے میڈیکل انشورنس کا حصول ووٹ ڈالنے کا حق اور لازمی اور مفت تعلیم کا حصول یہ وہ سب کام ہیں جو بہت پہلے ہو جانے چاہیئے تھے لیکن اس بل کے پہلے باب کی شق نمبر ۲ کی ذیلی شق (N) میں ٹرانس جینڈر کی تعریف کے حوالے سے ایک لفظ any person" " کا جو اضافہ کیا گیا اس نے اس سارے احسن عمل کو داغدارکر دیا ہے۔ اس شق کے تحت قرار دیا گیا ہے کہ ٹرانس جینڈر کوئی ایسا شخص بھی ہو سکتا ہے جو محض اپنے باطنی یعنی داخلی احساس کی بنا پر زندگی میں کسی بھی وقت اپنی جنس میں تبدیلی چاہے یعنی کوئی بھی مرداگرچہ طبی طور پر بھرپورمرد ہو لیکن زندگی میں کبھی بھی وہ اگر یہ محسوس کرے کہ وہ عورت ہے تو قانوناََاس کو عورت مان لیا جائے۔ اسی طرح کوئی عورت محض اپنے باطنی احساسات کی بنا پر جب چاہے عورت ہوتے ہوئے بھی خود کو مرد ڈکلئیر کر سکتی ہے ظاہر ہے کہ اگر اس بات کی اجازت دے دی گئی تو سماج کا تارو پور بکھر جائے گا ہر شخص اپنے داخلی احساس کی بنا پر بغیر کسی طبی معائنے کے خود کو عورت اور کبھی مرد قرار دینے میں آزاد ہوگاجس کا لامحالا اثر کئی قوانین پر بھی پڑے گا ۔ دراصل اس قسم کی متنازعہ شق بل میں ڈالنے کا مطلب تو یہ ہوا کہ معاشرہ مادر بدر آزاد ہو جائے اگر محض فرد کے داخلی احساس کو ہی حرف آخر مان لیں تو پھر یاد رکھیئے کہ دنیا میں ایسے کئی افراد بھی موجود ہیں جو انسان ہوتے ہوئے خود کو جانور تصور کرتے ہیں ان لوگوں نے اپنا ایک باظابطہ گروہ بھی بنا رکھا ہے ان کی اپنی ایک ویب سائٹ ہے یہ خود کو Other Kin" " کے نام سے پکارتے ہیں راقم نے خود جب اس گروہ کے بارے میں گذشتہ دو دن میں تحقیق کی تو پتہ چلا کہ مغربی ممالک میں دس ہزار سے زائد افراد انسان ہوتے ہوئے بھی خود کو کتا تصور کرتے ہیں بے شمار خواتین خود کو بلی تصور کرتی ہیں یہ افراد اپنے تصور کے مطابق اسی جانور کی طرح حرکتیں کرتے ہیں ۔ اب ذرا سوچئے کہ کیا نادرا ایسے انسانوں کو بطور جانور رجسٹر کر سکتا ہے یقیناََ ہر گز نہیں ۔اس بحث کا مطلب ہے کہ محض داخلی احساس کی بنا پر کسی فرد کی شناخت میں جوہری تبدیلی کو دنیا کا کوئی قانون نہیں مان سکتا اسی طرح اس ٹرانس جینڈر ایکٹ میں ایک بڑی کمی یہ ہے کہ اس میں ایک شق کا اضافہ کیا جائے جس کے تحت پیدائشی طور پر خواجہ سرابچوں کو گھر سے نکالنے کے عمل کو قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دیا جائے بلکہ اس کو سماج کے خلاف ریاست کے خلاف اور سب سے بڑی بڑھ کرمذہب کے خلاف ایک جرم تصور کیا جائے کیونکہ کسی بچے کو محض اس وجہ سے گھر سے نکالنا کہ وہ خواجہ سرا پیدا ہوا ہے ۔ اللہ پاک کی مرضی اور منشاء کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف ہے کیونکہ کوئی بھی بچہ اپنی مرضی سے اپنی جنس کا انتخاب نہیں کرتا محض اس وجہ سے اس کو اس کے اپنے ہی گھر سے نکالنا ظلم نہیں ہے؟ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے مہربان ڈاکٹرامجد ثاقب صاحب جو کہ خواجہ سرا ئوں کی فلاح و بہبود کے لیے بے پناہ کام کر رہے ہیں اس ضمن میں قانون سازی کے لیے اپنا اثرورسوخ ضرور استعمال کریں گے تاکہ برسوں سے جاری یہ ظلم ختم کیا جا سکے۔