تحریک پاکستان کی زندہ تاریخ، شعلہ بیاں مقرر، ماہر قانون، ماہر تعلیم، ادیب، مصنف، سماجی رہنما اور انتہائی درد مند دل رکھنے والے آزاد بن حیدر دو مئی 2020 ء کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے، انہوں نے صحت مندی کے ساتھ طویل عمر پائی اور اپنی زندگی کا ہر لمحہ حکیم الامت علامہ محمد اقبال ،بانی پاکستان اور پاکستان سے عشق کرتے ہوئے گزارا، ان کی دوستیاں اور دشمنیاں صرف پاکستان کے سبب سے تھیں، وہ ایک بیدار مغز، تاریخ دان ہی نہیں تھے بلکہ ان کی رگ رگ میں عشق مصطفیؐ دوڑتا تھا، آزاد بن حیدر جیسی تاریخی شخصیات شاید اب انگلیوں پر گنتی کے برابر بھی باقی نہ بچی ہوں، تاہم آزاد بن حیدر علم وفضل میں ایک یونیورسٹی تھے او ران کا دل بے شمار رازوں سے بھرا ہوا تھا، انہوں نے اپنا لڑکپن ’’لے کے رہیں گے پاکستان ‘‘کے نعرے لگاتے ہوئے گزارا، جوانی حکیم الامت اور بانی پاکستان کی فکر کو پاکستان کے سیاسی نظام کا حصہ بنانے کے لیے صرف کی اور اپنا بڑھاپا تحریک پاکستان اور مشاہیر پاکستان کی یادوں کو رقم کرتے ہوئے بسر کیا، آزاد بن حیدر وہ خوش بخت ہستی ہیں کہ اللہ نے انہیں طویل عمر عطاء کی اور انہوں نے اپنی عمر کا ہر سانس حقیقی معنوں میں پاکستان سے محبت کرتے ہوئے بسر کیا۔ قابل صد احترام آزاد بن حیدر سے میری پہلی ملاقات 2002ء میں مشرف دور میں مسلم لیگ ہائوس لاہور میں ہوئی، پرویز مشرف کی زیر نگرانی انتخابات ہو چکے تھے، ق لیگ اقتدار میں آچکی تھی، ق لیگ کے دوسرے صدر چودھری شجاعت حسین (پہلے صدر میاں اظہر)نے پرانے مسلم لیگیوں کو ٹیلیفون کر کے متحدہ مسلم لیگ میں شامل ہونے کی دعوت دی اور سب سے وعدہ کیا کہ وہ اس مسلم لیگ کو ایک ادارہ بنائیں گے اور افراد کی خواہشات کی بجائے قائداعظم کی سیاسی فکر کے مطابق یہ نظریاتی سیاسی سفر طے کرے گی، یہ دعوت آزاد بن حیدر تک بھی پہنچی اور چودھری شجاعت حسین کی ذاتی کوشش اور خواہش پر آزاد بن حیدر پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد وجود میں آنے والی مسلم لیگ سیاسی حوالے سے ’’درمرجع خلائق‘‘ تھی۔ ہر شخص قطار اندر قطار اس میں شامل ہورہا تھا اور منہ موتیوں سے بھررہا تھا، آزاد بن حیدر چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کے بلاتکلف ساتھی تھے، وہ جو چاہتے حاصل کر سکتے تھے مگر انہوں نے کبھی اپنی ذات کے لئے سوال کیا اور نہ کبھی کسی عہدے کی خواہش کی، وہ اکثر مجھے کہتے تھے کہ میں زیادہ خوش فہم تو نہیں ہوں لیکن چودھری شجاعت حسین ایک بھلے انسان ہیں، اس دوران انہوں نے مسلم لیگ ہائوس ڈیوس روڈ والی پرانی عمارت کی بیسمنٹ میں ایک گیلری بھی بنائی اور اپنے خرچ پر مشاہیر پاکستان کی پینٹنگز بنوا کر آوایزاں کروائیں ۔ چودھری شجاعت حسین نے 2005 ء میں مسلم لیگ کی صد سالہ تقریبات منانے کا اعلان کیا اور وہ چاہتے تھے کہ مسلم لیگ کی تاریخ کے حوالے سے کوئی تحقیقی کام ہونا چاہیے تو اس حوالے سے مشاہد حسین سید کی تجویز پر آزاد بن حیدر کو تحریک پاکستان کی تاریخ مرتب کرنے اور مشاہیر پاکستان کے تعارف پر مشتمل کتب تحریر کرنے کی درخواست کی گئی، آزاد بن حیدر نے 30سے زائد کتب تحریر کیں اور کسی ایک کتاب کا بھی معاوضہ قبول نہیں کیا، یہ کتب آج بھی دستیاب ہیں بلکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ تحریک پاکستان اور تاریخ پاکستان کے حوالے سے مرتب شدہ کتب میں آزاد بن حیدر کا تحریر کردہ مواد بھی شامل کرے اور مشاہیر پاکستان کو نصاب میں پڑھایا جائے۔ ، انہوں نے مسلم لیگ کو چھوڑ کر خود کو تصنیف و تالیف تک محدود کر لیا۔ انہوں نے اس وقت مجھے بتایا کہ وہ تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ سرسید سے قائداعظم تک مرتب کررہے ہیں اور پھر 2013 ء میں ہونے والی ایک ملاقات میں انہوں نے اپنے ہاتھوں سے دستخط شدہ مجھے اس کی ایک کاپی دی، یہ کتاب 1150 صفحات پر مشتمل ہے۔ میری بالمشافہ آخری ملاقات جنوری 2018ء میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ہوئی اور انہوں نے مجھے بتایا کہ میں نے جناح مسلم لیگ بنا ئی ہے، اس کا ہر ممبر گریجوایٹ ہو گا اورانہوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ جسٹس (ر)نذیر غازی صاحب بھی اس کی ممبر شپ حاصل کر چکے ہیں۔ آزاد بن حیدر صاحب فرماتے تھے کہ ہم سب مل کر باقی ماندہ 25فیصد پاکستان کو بچا لیں، اس 25فیصد پاکستان کو بھی تباہ و برباد کرنے کے منصوبے آخری مراحل میں ہیں، میں نے پوچھا 25فیصد سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا 7فیصد مقبوضہ کشمیر، 7فیصد جونا گڑھ، 7فیصد حیدرآباد دکن اور 54فیصد مشرقی پاکستان کا علاقہ ہم سے چھین لیا گیا اور باقی ماندہ 25فیصد کا وجود خطرے میں ہے اور ایک سازش کے تحت کرپٹ، نااہل ہوس زر میں اندھی، لالچی قیادت کو پاکستان کی باگ ڈور سونپی گئی ہے ، نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے بیگانہ کر دیا گیا ہے، نااہل سیاسی قیادت غیر محسوس طریقے سے صہیونی قوتوں کی آلہ کاری کے فرائض انجام دے رہی ہے ، اس موقع پر آزاد بن حیدر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ شیخ مجیب پاکستان توڑنے کے مرکزی پلان سے ناواقف تھے، جب انہیں اصل پلان کا پتہ چلا تو وہ پاکستان کے اس وقت کے ذمہ داران سے خفیہ ملاقات کر کے سارا پلان بے نقاب کرنا چاہتے تھے مگر ان کی ملاقات کی کسی کوشش کو کامیاب نہ ہونے دیا گیا اور پاکستان ٹوٹ گیا، انہوں نے کہا کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے میرے سینے میں وہ راز ہیں جو ابھی سامنے نہیں آئے اور میں اپنی بائیوگرافی لکھ رہا ہوں، یہ سارے راز اس میں شامل کروں گا، آخری ملاقات میں وہ مسلسل وہ سگریٹ پی رہے تھے، انہوں نے محسوس کیا کہ سگریٹ کے دھویں سے میں بد مزہ ہورہا ہوں تو انہوں نے ایک لمبا کش لے کر کہا ’’دو چیزوں کو میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا، ایک اپنی بیوی اور دوسرے یہ سگریٹ‘‘ ۔قابل صد احترام آزاد بن حیدر سے بالمشافہ ملاقات میں میری سماعتوں سے ٹکرانے والے یہ آخری الفاظ تھے لیکن وہ یہ عہد نہ نبھا سکے اوراپنی اہلیہ کو چھوڑ گئے۔