اسلام آباد(خبر نگار) سپریم کورٹ نے ہزارہ کمیونٹی اور جبری گمشدگیوں پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ کو نادرا ریکارڈ سمیت طلب کرلیا ہے ۔دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد ریمارکس دیئے کہ پولیس نے گمشدہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئی کارروائی نہیں کی، بازیاب شہری خوف کی وجہ سے اغوا کاروں کے نام نہیں بتا رہے ، شہری کہتے ہیں نام بتا دیئے تو ایک بار زندہ واپس آگئے دوبارہ نہیں آسکیں گے ۔عدالت نے آٹھ سال سے لاپتہ علی رضا کو آئندہ سماعت پر پیش کرنے کا حکم دیا اور قرار دیا کہ علی رضا کے اغوا میں ملوث کرداروں کو سامنے لایا جائے ،علی رضا کی بازیابی میں کسی کی لاپروائی برداشت نہیں کی جائے گی۔چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس پر سماعت کی تو ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے پیش ہو کر بتایا کہ گمشدہ افراد کے معا ملے میں کاروائی کی گئی ہے جن چار افراد کو کوئٹہ سے بازیاب کرایا گیا وہ عدالت میں بھی موجود ہیں۔ عدالت نے بازیاب ہونے والے چار وں افراد کے اغواء میں ملوث کرداروں کو پکڑ نے اور اغوا کاروں کیخلاف قانون کے تحت سخت ایکشن لینے کی ہدایت کی ۔عدالت نے قرار دیا کہ ہزارہ برادری کو پاسپورٹ کے حصول میں درپیش مشکلات کا ازالہ کیا جائے ،کوائف پورے ہیں تو انہیں پاسپورٹ کا اجرا کیا جائے ۔ عدالت نے آبزرویشن دی کہ زبان زد عام ہے کہ بلوچستان میں قانون کو توڑنے والے عناصر موجود ہیں، بلوچستان حکومت شر پسند عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے ،بلوچستان اور کوئٹہ شہر میں ہزارہ برادری کا تحفظ یقینی بنایا جائے ۔ کوئٹہ سے گمشدہ شہری علی رضا کی اہلیہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کا شوہر 2013 ء سے لاپتہ ہے ،جس آدمی پر اغوا کا شک تھا پولیس نے بری کر دیا۔جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے آئی جی بلوچستان کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آئی جی صاحب یہ کیا ہو رہا ہے ،سات سال سے ایک شخص لاپتہ ہے پولیس نے کچھ بھی نہیں کیا۔پولیس کی تفتیش میں کوئی دلچسپی ہی نہیں ،کیا آپ کو معلوم بھی ہے تفتیش کس چڑیا کا نام ہے ،ملزم عدالت کا پسندیدہ بچہ ہوتا ہے پولیس کا نہیں،وردی کس لیے پہنائی ہے آپ کو؟ آپ کو کسی کا احساس ہی نہیں،جرم کے شواہد 24 گھنٹے میں غائب ہو جاتے ہیں،پولیس انتظار کرتی رہتی ہے کوئی ان کا چائے پانی کا بندوبست کرے تو یہ کارروائی کریں،آپ اس وردی کا لحاظ نہیں کرتے ۔عدالت نے سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔