3جنوری2021ء کو کوئٹہ کے جنوب میںتقریباً60کلومیٹر کی دوری پر ’’مچھ‘‘ کے علاقے میں انسانیت دشمنوں نے کوئلہ کی کانوں میں محنت مزدوری کرنے والے کان کنوں کے خون سے ہولی کھیلی ۔مزدوروں کونیم شب گہری نیند سے اُٹھا کر ایک ایک کر کے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ سفاک دہشتگردوں نے اس حرام و مذموم مقصد کے لیے قومی شاہراہ پر مچھ شہر کو ملانے والے مقام سے کچھ آگے دائیں طرف ’’ گشتری‘‘ کے مقام پر پہاڑوں کے اندر کوئلہ کانوں کے پاس مقیم مزدوروں کا انتخاب کیا۔ یہ سب افراد کوئٹہ کے ہزارہ ٹائون کی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے تھے۔ دن بھر کی محنت و مشقت سے تھکے ماندے یہ محنت کش گہری نیند سورہے تھے ،کہ مسلح گروہ کے کارندوں نے محاصرہ کرلیا۔ نیند سے بیدار کیا، آنکھوں پر پٹیاں اور ہاتھ پائوں باندھ کرتیز دھار آلے سے بڑی بے دردی سے ذبح کردیا۔ صبح ہی مقامی لیویز اور قومی شاہراہوں پر موجود فرنٹیئر کور کو دلدوز واقعہ کی اطلاع ہوئی۔ ہزارہ عوام نے مچھ قومی شاہراہ پر پہلے پہل میتیں رکھ کر احتجاج کیا۔ کچھ دیر میں مرد و خواتین نے کوئٹہ کا مغربی بائی پاس بند کرکے صدا ئے احتجاج بلند کیا۔ ذمہ داری داعش گروہ نے تسلیم کر لی ۔تحریک طالبان پاکستان ، داعش ہوں یا لشکر جھنگوی افغانستان سے آپریٹ ہورہی ہیں۔ یہ گروہ کوئٹہ اورصوبے میں مختلف علاقوں میں کئی بھیانک دہشت گردی کے واقعات کرچکے ہیں۔ہزارہ عوام تین دہائیوں سے نشانے پر ہیں۔ سینکڑوں مرد ، خواتین و بچے پیوند خاک ہوچکے ہیں۔جون 2017ء میں کوئٹہ سے اغوا کئے گئے دو چینی باشندو ں کی بازیابی کے لیے مستونگ کے علاقے’’ اسپلنجی ‘‘ کے پہاڑی سلسلے میں داعش کے کیمپ کے خلاف آپریشن ہوا۔یہ داعش کا بلوچستان سندھ اور پنجاب کا مرکزی کیمپ تھا۔ یہاں ان کے بارہ لوگ مارے گئے ، گرفتاریاں بھی ہوئیں ، کچھ فرار ہوکر افغانستان چلے گئے۔ اس کیمپ کا چینی جوڑے کے اغوا ء کے بعد ہی انکشاف ہوا تھا ۔ ایک بلوچ عسکریت پسند تنظیم (بی ایل اے )کے افغانستان میں موجود سربراہ نے ہزارہ مزدوروں کے قتل کو ریاست پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔حالانکہ یہ اور اس سوچ کی دوسری تنظیمیں خود اس نوعیت کی کئی سنگین کارروائیوں کی مرتکب ہیں۔دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بالخصوص پنجاب اور خیبر پشتونخوا کے باشندوں کی بڑی تعداد ان کے ہاتھوں قتل ہوچکی ہے ۔جولائی 2012ء میں اسی تنظیم نے کوئٹہ سے متصل’’ سورینج‘‘ کے علاقے میںخیبر پشتونخوا سے تعلق رکھنے والے سات کان کنوں کواغوا کے بعد گولیاں مار کرشہید کردیا تھا۔مزدور تنظیم نے لاشیں بلوچستان ہائی کورٹ کی عمارت کے سامنے رکھ کر لا کر احتجاج کیا۔ اُس وقت سپریم کورٹ کی کوئٹہ رجسٹری میں تب کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری بلوچستان میں لاپتہ افراد اور امن کے حوالے سے کیسوں کی سماعت کر رہے تھے۔ اسی طرح ان مسلح تنظیموں نے تعمیراتی کمپنیوں کے کیمپوں پر حملہ کرکے مزدوروں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ دوئم انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ مسلح تنظیمیں افغانستان کے خفیہ ادارے این ڈی ایسا اور انڈین جاسوس ادارے ’’را ‘‘کے کہنے اور اشتراک سے کیا گل کھلارہی ہے۔داعش گروہ کابل اور افغانستان کے دوسرے علاقوں میں کئی بہیمانہ کارروائیاں کرچکا ہے۔ تعلیمی اداروں، ہسپتالوں ، سیاسی و عوامی اجتماعات پر حملے کرچکا ہے۔وہاں ہزارہ عوام پر کئی حملے بھی ہوئے ہیں ۔اور خود ’را‘ کی شہ پر گزشتہ چند دنوں میں پانچ صحافی قتل ہوچکے ہیں۔ سماجی کارکن اور علماء کا ہدفی قتل ہوا۔ حملے داعش بھی قبول کرچکی ہے ۔ ان صحافیوں،علماء اور سماجی کارکنوں کی موت پر حقائق کے برعکس ،کابل کی حکومت اپنے اور بھارتی مفادات کے لیے الزامات بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھاافغان طالبان پر عائد کرتی ہے۔ افغانستان کے شہریوں کی طرح ایک جاپانی ماہر اور سماجی کارکن ڈاکٹر ناکامورا کا قتل ہوا ۔تاکہ اس کے لئے افغان طالبان کو مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ مگر افغان عوام اس تخریبی سیاست سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ افغان طالبان کے ساتھ امن بات چیت کابل حکومت کو ناگوار ہے کہ امن کے قیام کے بعد ان کی حکمرا نی نہیں رہے گی۔ نئی دہلی حکومت اس لئے تخریب کی کوششیںکررہی ہے کہ پاکستان کے خلاف کابل اس کا اہم مورچہ بن چکا ہے۔چناں چہ اس گھنائونے اور سیاہ کھیل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔جس میں معصوم و بے گناہ تختہ مشق بنائے جاتے ہیں۔گویا کابل ا ور نئی دہلی مجرم ہیں جو اپنے سیاسی او تزویراتی مقاصد کے حصول کے لیے دہشتگردوں کو پال رہے ہیں۔یہاں ہزارہ عوام کا یہ احتجاج برحق ہے۔ ان کے پاس اپنے تحفظ کو یقینی بنانے اور شنوائی کے لیے کوئی اور راستہ نہیں۔لیکن خیال رہے کہ ان کی مظلومیت اور بے بسی ،کوئی اور اپنے گروہی مفادات کے لیے استعمال نہ کرے۔دھرنے کے شرکاء سے صوبائی و وفاقی حکومت کے نمائندوں نے جاکرمذاکرات کئے۔ ۔ مگر دھرنا کی منتظم جماعت نے صوبائی حکومت کے مستعفی اور وزیراعظم عمران خان کے کو ئٹہ آمد کی شرط رکھی ۔صوبائی حکومت کے استعفے کا مطالبہ میں معقولیت نہیں ہے۔ وہ اس لئے کہ صوبے میں حکومتی فورسز سمیت کئی طبقے دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں۔فوج، عدالتوں ،پولیس تربیتی کالج ،پولیس دفاتر ،مسیحی برادری کے گرجا گھروں ،مساجد و مدارس پر حملے ہوئے ہیں ۔جنوری2013ء میں علمدار روڈ خودکش حملے کے بعد 86 میتیں سڑک پر رکھ کردھرنا دیا گیا ۔ وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کو ذمے دار قرار دے کر ان کی حکومت برطرف کی گئی۔ دو ماہ کے لیے گورنر راج نافذ ہوا ۔مگر اسی گورنر راج میں ہزارہ ٹائون میں ایک اورخود کش حملے میں 100سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔نہ واقعات اورحملے آئندہ تھمے ۔یقینی طورآصف علی زرداری ، صوبے کی چند سیاسی جماعتوںاور سیاست میں در پردہ دخیل بعض دوسرے حلقوں نے اس دھرنے سے اپنے اہداف پانے کی کو شش کی ۔ دیکھا جائے تومعروضی حقیقت یہ ہے کہ خود نواب اسلم رئیسانی اور ان کے خاندان کو خطرات کا سامنا ہے ۔ نواب اسلم وزیراعلیٰ تھے تواُن پر کوئٹہ میں بم حملہ ہوا ۔ پھر مستونگ میں ان کے جواں سال بھتیجے حق کو بی ایل اے نے بم حملے میں شہید کردیا ۔ اور پھر 2018ء کے انتخابی مہم کے ایک جلسہ میں، مچھ میں ہزارہ مزدوروں کے قتل میں ملوث نیٹ ورک یعنی دا عشی گروہ نے ان کے چھوٹے بھائی نوابزادہ سراج رئیسانی کو خودکش حملہ کرکے شہید کر دیاجس میں کئی لوگ جا ن سے گئے۔لہذا کابل کے اسٹیج پر ہونے والی مکروہ سیاست حتی کہ ان کے پاکستان میں بھی موجود کار پردازوں و چیلوںکے خلاف ہر سطح سے آوازیں اُٹھنی چاہیں ۔