تجزیہ: سید انورمحمود پاکستان کو قومی مکالمے کی ضرورت ہے اور وزیراعظم کو ضرور پہلا قدم اٹھانا چاہئے ۔ اس سے زیادہ حیرت انگیز اور بیباک نہیں ہوا جا سکتا تھا، ایاز صادق اس سے زیادہ واضح نہیں ہو سکتے تھے جو انہوں نے کہا، اور دو روز بعد وہ مولانا فضل الرحمٰن کیساتھ کھڑے ہو کر کہہ رہے ہیں کہ حکومت اور بھارتی میڈیا ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر غلط انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ تو کیا اب وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ بھارتی میڈیا انہیں کال کر کے پوچھے کہ کیا آپ نے یہی کچھ کہا تھا؟ اور کیا پاکستانی میڈیا نے بھی انکے اپنے ہی ملک اور فوج کیخلاف غداری کی حدوں کو چھوتے ہوئے سخت تنقیدی بیان کو غلط رپورٹ کیا؟ اور ایک ہی سانس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ اس پر قائم ہیں۔ مولانا نے ایاز کے بیان کو سیاستدان کے بیان کے طور پر پیش کرنے کیلئے بہت پھرتی دکھائی۔کیا اب دو جمع دو چار نہیں ہیں؟ دونوں اس وقت صحیح ہوتے ہیں جب کہتے ہیں کہ کسی کو بھی کسی کو غدار کہنے کا حق نہیں۔ لیکن اس وقت کیا جب کوئی اپنی ہی فوج کیخلاف گھٹیا اور مضحکہ خیز بیان دے اور اپنی ہی فوج کی ملک کے کھلے دشمنوں کیخلاف واضح جیت کو سرنڈر کہے ۔ اب اگر بھارتی میڈیا قومی اسمبلی کے سابق سپیکر کے اپنے ہی ملک اور فوج کیخلاف بیان کو نظرانداز کرتے تو میں اسے انتہائی احمق کہوں گا۔ یقیناً انہوں نے فوراً اس بیان کو استعمال کیا اور کہا ’’دیکھا ہم نے نہیں کہا تھا‘‘۔ آزاد میڈیا ہر معاملے میں آزاد ہے سوائے اس وقت جب معاملہ ریاستوں کے مابین معاملات کا ہو۔ بھارتی میڈیااس معاملے میں حد درجہ احتیاط اور سیلف سنسرشپ کی کلاسیک مثال ہے ۔ افسوس ہے کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے ، جہاں آزاد میڈیا، اس کا ایک حصہ ابھی تک آزادی اور ریاستوں کے مابین تعلقات کے معاملے میں خود کو روکے رکھنے کے درمیان فرق نہیں کر سکتا، بالخصوص جب معاملہ بھارت کا ہو۔ایاز صادق کے معاملے کی جانب واپس لوٹتے ہیں، کیا کسی نے گوجرانوالہ جلسے کے تنقیدی حملوں کا پیٹرن اور طریقہ کار کا نوٹس نہیں لیا؟ دو روز قبل ہی میں نے ، اور دیگر کئی مصنفین نے بھی، پاکستان کی سیاسی اور فوجی تاریخ کے تناظر میں اس بحران کی نشاندہی کی تھی جو ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے ، کہ سیاستدانوں کی بڑی تعداد کا اپنے ذاتی مفادات کیلئے کوشش کرنا اب خفیہ نہیں رہا، لیکن یہ اپنے ذاتی مفادات کیلئے اس حد تک پہنچ جائیں گے ، یہ میں نے تصور نہیں کیا تھا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ یہ قیامت کی نشانی ہے کہ مسلم لیگ کی حب الوطنی پر شک کیا جائے ۔ وہ درست ہیں، سوائے اس کے کہ یہ مسلم لیگ (ن) ہے ۔ وہ مسلم لیگ جس نے ہمیں پاکستان بنا کر دیا، اسے آزادی کے چند سال بعد ہی ہائی جیک کر لیا گیا تھا اور اس وقت کے حکمرانوں نے اس کی شکل ہی تبدیل کر دی تھی۔اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے پاکستان بنایا اور جنہوں نے اسکی مخالف کی ان دونوں کے وارث پاکستان کیلئے نقصان دہ بیانیے کے دفاع کیلئے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔آزاد اور شفاف الیکشن کا مطالبہ بالکل درست ہے ، حکومتی امور میں عدم مداخلت کا مطالبہ بھی بالکل ٹھیک ہے لیکن اس کیلئے سیاستدانوں کو پہلے اپنے آپ کو درست رکھنا ہوگا۔موروثی سیاست کا خاتمہ کریں اور سیاسی جماعتوں کو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کی طرح چلانے کا طریقہ ختم ہونا چاہئے ۔ ایک عام آدمی کو سیاسی جماعت میں اعلیٰ مناصب پر فائز کریں۔ ہر سیاسی جماعت سچی جمہوریت کا مظاہرہ کرے اور دوسروں کیلئے مثال قائم کرے ۔ پاکستان کو پہلے سے کہیں زیادہ آج قومی مکالمے کی ضرورت ہے ۔ ایسا مکالمہ جو بنیادی ہو اور تمام قومی معاملات بشمول آئین پر نظرثانی کا احاطہ کرے ۔ پاکستان کی سکیورٹی اور معیشت اس بات کا تقاضا کرتی ہیں۔ پاکستان اور پاکستانی اس کے مستحق ہیں۔اس مکالمے کے انعقاد کیلئے دونوں اطراف سے انا اور ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھنا ہوگا۔ قومی مکالمے کیساتھ احتساب کا عمل جاری رہے ۔ وزیراعظم کو پہلا قدم اٹھانا ہوگا حتیٰ کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کامیاب نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے کہ کچھ انہونی ہو جائے جسے پاکستان برداشت نہ کر سکتا ہو۔ تجزیہ، انور محمود