مکرمی ! ملک میں پچھلے کئی برسوں سے انتخابات ہو رہے ہیں،مگر عوام تو یہ سمجھنے سے ہی قاصر ہے کہ سیاست دان تو محض الیکشن کے دنوں عوام کے بڑے ہمدرد ہوتے ہیں اور پُر تعیش گاڑیوں سے اتر کر کس طرح جھک جھک کر سلامی پیش کرتے ہیں؟مصافحے کرتے ہیں۔رشتہ داریاں جوڑ دیتے ہیں اور نہایت ہی مسکین صورتیں بنا کر ووٹوں کی بھیک مانگتے ہیں۔الیکشن جیتنے کے بعد کسی غریب کی سلام کا جواب دینا بھی گوارا نہیں کرتے۔عوام کے اُمنگوں کی ترجمانی کرنے کے دعوے دار کس طرح عوام کی اُمیدوں پر پانی پھیرتے ہیں؟ان کا عوام سے ملنا،شادیوں میں جانا،مریض کی عیادت کے لیے جانا،کسی میت پر جانا اور تو اور فاتحہ خوانی بھی سیاسی مقاصد کے لیے ہوتی ہے۔ یہی مظاہرہ ابھی جی بی میں ہو رہا ہے۔راقم الحروف کا عام و خاص سے دست بستہ التجا ہے کہ 15 نومبر 2020ء کو گلگت بلتستان میں ایک بار پھر سیاسی دنگل سجنے والا ہے۔خدارا اس الیکشن کو جنگ مت بنائیں۔یہ چند گھنٹوں کا کھیل اور کچھ دنوں کی امیری ہے۔جس کے لیے رشتوں میں دوریاں اور نفرتوں کو پروان چڑھانے کے بجائے ایک دوسرے کے دلوں میں گھر کرنے کا ہنر سیکھ لیجیے۔بشیر بدر کے اس شعر کے ساتھ: دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں ( اقبال حسین اقبال،گلگت )