ایک اور آڈیو لیک ہو گئی، یہ آڈیو ٹیپ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے مابین ایک گفتگو پر مشتمل ہے جس میں وہ مشہور زمانہ سائفر ہے جسے عمران خان نے اپنی حکومت کے خلاف امریکی سازش قرار دیا تھا۔ وہ اسے ا پنی حکومت کے خلاف امریکی سازش کا بیانیہ بنانے کے لئے استعمال کرنے کی بات کرتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں۔اس سے قبل جو آڈیو ٹیپ منظر عام پر آئی وہ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی مریم نواز اور ان کے وزرا کے مابین گفتگو پر مشتمل ہے جو مبینہ طور پر وزیر اعظم ہائوس میں کی گئی۔ ہر دو ٹیپ کے منظر عام پر آنے پر مخالف سیاست دانوں نے حسب معمول اور حسب عادت ایک دوسرے پر خوب خوب دشنام طرازی کی۔پاکستان کی سیاست میں اس طرح کی ٹیپس اس سے قبل بھی آتی رہی ہیں اور سیاسی سطح پر کچھ وقت کے لئے ایک ہیجانی کیفیت پیدا کرکے پس منظر میںچلی جا تی ہیں ۔اس بات سے قطع نظر کہ ان کے مندرجات کیا ہیں، ہمارے لئے یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ ان ٹیپس کا منظر عام پر آنے کے مقاصد اور نتائج کیا ہیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت ( اور سابقہ تمام سیاسی قیادتیں بھی ) ،جیسا کہ عمومی تاثر ہے، اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کو حکومت کے حصول کے لئے ضروری سمجھتی ہیں۔ پاکستان میں حکومتوں کے بننے اور بگڑنے کی یہی تاریخ رہی ہے ۔سیاسی اور حکومتی امور میں محدود اور مجہول کردار کے تسلسل کے باعث سیاسی جما عتیں اور سیاست دان اپنی بقا کے لئے عوام کی حمایت کے بجائے ا سٹیبلشمنٹ کی نظر کرم پر زیادہ انحصار کرتی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں کی کمزور بنیادوں سے بخوبی واقف ہے وہ جب اور جس کے خلاف بھی مورچہ بند ہو جائے اور جس طرح چاہے حکومتوں اور سیاستدانوں کی کمزوریوں کو منصہ شہود پر لے آتی ہے۔ حکومتوں کے قیام کا بنیادی مقصد عوام اور ریاست کو درپیش مسائل کو اپنے سیاسی پروگرام کے مطابق ، جو وہ الیکشن کے موقع پر منشور کی صورت عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں ، حل کرنا ہوتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت پوری توجہ اور اخلاص کے ساتھ اپنے اختیارات کو اپنی حاصل شدہ مدت میں آزادانہ استعمال کر سکے۔ بد قسمتی سے پاکستان کی حکومتی سیاست میں یہ سارے عناصر ( توجہ، اخلاص،تکمیل مدت کا یقین اور آزادانہ اختیارات کا استعمال) بالعمو م مفقو د رہے ہیں۔ پاکستان اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں سے شدید متاثرہے ۔کروڑوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ،فصلیں برباد، سڑکیں، پل، ریلوے ٹریکس،اور دیگر ذرائع مواصلات سب بہہ گئے ہیں۔ بے گھر افراد کی بحالی ،غذائی ضروریات ،صحت کے مسائل،تعلیم، اور معاشی طور پر پہلے سے مخدوش حالت سے دوچار ریاست کو اس وقت حکومت اور تمام سیاسی قیادت کی گہری توجہ اورمشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ مگر ہو کیا رہا ہے ۔ وہی سیاسی بازی گری ،وہی آزمودہ چالیں۔ پاکستان کی تاریخ کے اس اہم اور نازک موڑ پر سیاستدانوں کی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی مو جودہ محاذ آرائی جو آڈیو اور وڈیو لیکس کی شکل میں شروع ہوئی ہے ریاست اور اس کے عوام کے لئے کتنے تباہ کن نتائج کی حامل ہے۔ اس کا کچھ اس کے ذمہ داروں کو اندازہ ہے ! ان کی یہ محاز آرائی سیاست اور ریاست کو کس سمت لے جارہی ہے ۔؟ سیاستدانوں کا موجودہ رویہ ناقابل فہم ہے وہ اس بات سے کیوں بے خبر ہیں کہ اس محاذ آرائی سے وہ حکومتی سیاسی نظام میںا پنی پہلے سے کمزور حیثیت کو مزید کمزور کر رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بات پر اپنی ساری توجہ مر کوز کی جاتی کہ ان ٹیپس کی ریکارڈنگ کس نے کی ۔ یہ نہ صرف سیاسی نظام کی سلامتی کا معاملہ ہے بلکہ ریاست اور اس کے امور کی سلامتی پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ مگرافسوس کہ سیاستدان اس نازک صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ایٹمی طاقت کی حامل ایک ریاست اپنی کمزور ترین معیشت کے باعث بین الاقوامی مالیاتی اداروں ،پالیسی ساز ایجنسیوں اور معاشی طور پر مستحکم ممالک کی طے کردہ حکمت عملیوں کے تابع رہنے پر مجبور ہے اور یہی امرباعث تشویش ہے ۔اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے مطابق جون 2022 ء تک پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ 16746.5 بلین روپے ہے جب کہ اس میں آئی ایم ایف کے واجب الادا قرضوں کا حجم 1409.6. بلین روپے ہے ۔ بیرونی تجارت کے مسلسل عدم توازن ،زرعی اور صنعتی پسماندگی اور محدود داخلی ذرائع آمدنی کے باعث ملک کی معیشت کا پہیہ چلانے کے لئے بیرونی قرضوں پر انحصار کی وجہ سے ہم قومی اور بین الاقوامی سطح پر ان کی طے کردہ پالیسیوں کو اختیار کرنے پر مجبور ہیں ۔ معاشی استحکام کے لئے درست قومی پالیسیوں کا تعین اور انکا موئثر نفاذ داخلی سیا سی استحکام کے بغیر ممکن نہیں اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ریاست کے تمام ادارے عدلیہ ہو یا انتظامیہ، عسکری ادارے ہوں یا سیاسی ادارے ہر ایک اپنی آئینی ذ مہ داریوں کو پورے اخلاص اور اشتراک کے ساتھ انجام د یں ۔ اس ضمن میں سیاست دانوں پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالتے ہوئے اپنی اصلاح کرتے ہوئے سیاسی اداروں کو مضبوط کریں ۔ اپنی حکومتوں کے استحکا م کے لئے غیر سیاسی قوتوں پر انحصار کرنے کے بجائے عوام اور پارلیمنٹ پر بھروسہ کریں اور ایسی تمام قوتوں کی حوصلہ شکنی کریں جو سیاسی عدم استحکام کا موجب ہو رہی ہوں۔موجودہ افشاء ہونے یا کی جانے والی لیکس پر سیاسی تماشہ بنانے کے بجائے تمام سیاست دانوں کو اس کے دور رس قومی اور بین ا لاقوامی اثرات پر فوری توجہ دینے کی شدید ضرورت ہے۔ ریاست اس وقت جن مسائل کا شکار ہے ،جس بحران میں گھری ہوئی ہے اور اس کا مستقبل جس طرح بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں یر غمال ہے اس کا تقاضہ سیاست دانوں سے سیاسی تدبر اور دانائی کے اظہار کا ہے۔ بد قسمتی سے سیاست دانوں کے موجودہ رویے اس دانائی کا مظہر نہیں ہیں۔ ریاست کے ساتھ کھلواڑ پر مبنی سیاست کو اب ختم ہو نا چاہیے ۔ سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ ریاست کے دیگر اداروں کو بھی اسی دانائی کا اظہار کرنا ہوگا ۔ ریاست کی بقا اور فلاح اسی میں ہے اور ریاست کی بقا میں ہی سب کی بقا ہے۔ ٭٭٭٭٭