اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے پیارے حبیب ِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان ہی بے پناہ عظمت ورفعت اور شان کے حامل ہیں۔تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان ہدایت کے روشن اور چمکتے ہوئے ستارے ہیں ،انہی نجوم ِ ہدایت میں سے ایک عظیم ہستی سیدنا عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ فضل و منقبت کے لحاظ سے ان اکابرِصحابہ کرام علیہم الرضوان میں شامل ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے السابقون الاولون فرمایا۔ آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب یہ ہے :’’عکاشہ بن محصن بن حرثان بن قیس بن مرہ بن کبیر بن غنم بن دودان بن اسد بن خزیمہ الاسدی۔‘‘ آپ رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ میں ہجرت ِ مدینہ منورہ سے پہلے اسلام قبول کیا،ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر آپ رضی اللہ عنہ نے بھی مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی۔ غزوۂ بدر میں آپ رضی اللہ عنہ نے شجاعت وبہادری کے خوب جوہر دکھائے ،حتیٰ کہ ان کی تلوار ان کے ہاتھ میں ٹوٹ گئی تو خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکڑی کی ایک ٹہنی یا کھجور کی ایک شاخ انہیں پکڑا دی اور فرما یاکہ عکاشہ، اس سے لڑو۔ خاتم النبیین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک سے ٹہنی لے کر انھوں نے خوب گھمائی تووہ سفید لوہے کی مضبوط پھل والی لمبی تلوار میں بدل گئی، آپ رضی اللہ عنہ اسی تلوار سے لڑتے رہے حتیٰ کہااللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح ونصرت عطا فرمائی، آپ رضی اللہ عنہ کی اس تلوار کو عون کے نام سے پکارا جانے لگا،باقی تمام غزوات میں بھی یہی تلوار آپ رضی اللہ عنہ کے پاس رہی۔ آپ رضی اللہ عنہ غزوہ ٔ بد ر کے بعد غزوۂ احد، غزوہ خندق اوردیگر تمام غزوات میں بھی شریک رہے ، آپ رضی اللہ عنہ ربیع الاول6ہجری میں چالیس صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایک جماعت کے ساتھ بنواسد کی سرکوبی پر مامور ہوئے جو مدینہ منورہ کی راہ میں چشمہ غمر پر خیمہ لگائے ہوئے تھے ،آپ رضی اللہ عنہ نہایت تیزی کے ساتھ یلغار کرتے ہوئے موقع پر جا پہنچے لیکن وہ خائف ہوکر پہلے ہی بھاگ گئے تھے ، اس لیے کوئی جنگ پیش نہ آئی، وہ اپنے سازوسامان میں صرف دوسو اونٹ اوربھیڑ بکریاں چھوڑگئے جنہیں آپ رضی اللہ عنہ ہانک کر مدینہ طیبہ لے آئے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’ میری امت میں سے جو پہلا گروہ جنت میں داخل ہو گاان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح (روشن) ہوں گے ، ان کے بعد جانے والے آسمان کے سب سے خوب صورت ستارے کی طرح چمکتے ہوں گے ،اس موقع پرسیدنا عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اورعرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے ان میں شامل فرمادے ۔ آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ! اسے ان میں شامل فرمادے ۔ پھرکسی اور نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم!اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ میرا شمار بھی ان میں فرمادے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:عکاشہ اس میں تم پر سبقت لے گیا ہے ۔‘‘ سیدنا عکاشہ رضی اللہ عنہ کا شمارانتہائی خوب صورت صحابہ کرام علیہم الرضوان میں ہوتا ہے ، ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے فرمایا: ’’عرب کا بہترین شہ سوار ہمارے ساتھ شامل ہے ، حاضرین نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم!وہ کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’عکاشہ بن محصن‘‘ حضرت ضرار بن اسود رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: وہ تو ہمارے ہی آدمی ہیں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صرف تمھارے ہی نہیں بلکہ ہم سب کے ہیں ۔‘‘ 11ہجری میں خلیفہ ٔ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو طلیحہ کذاب کی بیخ کنی پر مامور فرمایا جس نے نبی کریم صلی اللہ علی وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا، سیدنا عکاشہ اورسیدنا ثابت بن اقرم رضی اللہ عنہما اس فوج کے آگے آگے مقدمۃ الجیش کی خدمت انجام دے رہے تھے کہ اتفاقاً راہ میں غنیم کے سواروں سے مڈبھیڑ ہوگئی جس میں خود طلیحہ کذاب اوراس کا بھائی سلمہ بن خویلد شامل تھا، ان دونوں نے اس شیر کو نرغہ میں لے کر شہید کردیا۔ اسلامی فوج جب ان دونوں شہیدانِ ملت کے قریب پہنچی تو ایسے جواہر پاروں کے فقدان کا سب کو نہایت شدید قلق ہوا،سیدنا عکاشہ رضی اللہ عنہ کے جسم پر نہایت خوفناک زخم تھے اور تمام بدن چھلنی ہوگیا تھا، سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ گھوڑے سے اتر پڑے اورتمام فوج کو روک کر اسی خون آلودہ پیراہن کے ساتھ ان کی تدفین کردی ۔ سیدنا عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی عمر چوالیس یا پینتالیس برس ہوئی، آپ رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ حضرت ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا بتاتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے وقت سیدنا عکاشہ رضی اللہ عنہ چوالیس برس کے تھے ، اس کے ایک سال بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں طلیحہ کذاب کے خلاف جنگ بزاخہ ہوئی جس میں آپ رضی اللہ عنہ نے شہادت کا مقام پایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آپ رضی اللہ عنہ کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام عالَمِ اسلام کو آپ رضی اللہ عنہ کے تصدق سے سربلندیاں عطا فرمائے ،آمین مآخذ ومراجع :صحیح بخاری ،صحیح مسلم،مسند احمد بن حنبل،طبقات ابن سعد ، اسد الغابہ، الاستیعاب