’مخدومہ ٔکائنات سیدہ فا طمۃ الزہر ہ سلام اللہ علیہا‘تمام مسلمانوں کے نزدیک ایک برگزیدہ ہستی ہیں جواہل سنت محققین کے نزدیک اعلانِ نبوت سے پانچ برس قبل(جب قریش کعبہ معظمہ کی از سرنو تعمیر میں مشغول تھے ) سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کے بطن اطہر سے اِس دنیا میں تشریف لائیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری عمر ِ مبارک 35برس تھی۔دھدیال اور ننھیال دونوں کا تعلق عرب کے معزز ترین قبیلہ قریش سے تھا۔ ‘سیدہ کا اسمِ گرامی فاطمہ ’فطم‘ سے مأخوذ ہے اور اس کا معنی ’انقطاع‘ہے ‘ اسی سے ’’فُطِمَ الصَّبِیُّ‘‘ (بچہ دور کیا گیا) ہے اور یہ اس وقت بولاجاتا ہے جب بچے کا دودھ چھڑا د یا گیا ہو‘ عموماً اسم کی اپنے مسمی میں جھلک وتاثیر پائی جاتی ہے اس لیے تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ کانام الہامِ الہٰی سے فاطمہ رکھا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جہنم سے دور رکھا ہے ۔ (دیلمی ، حاکم ) بعض اہل علم کا قول ہے :’’آپ کانام’ فاطمہ‘ اس لیے رکھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اور ان کی ذریت کو قیامت کے دن آگ سے دور کردیا ہے ۔‘‘ ( المواہب اللدنیہ) آپ کے القاب میں ’زہرہ‘ ، ’بتول ‘،’سیدۃ نساء العالمین‘، ’سیدۃ نساء اہل الجنۃ‘ کے القاب نہایت معروف ہیں ۔لفظ ’زہرا‘کا مادہ ’زا‘ کی زبر کے ساتھ ہو تو یہ کلی اور شگوفے کو کہتے ہیں اور اگر ’زا‘ کی پیش کے ساتھ ہوتوتازگی، حسن، روشنی، چمک اور خوبصورتی کو ’’زُہرۃ‘‘ کہتے ہیں۔ (دلائل النبوۃ ،بیہقی)لفظِ’ بتول‘ کا مادہ (ب‘ ت‘ل) ہے اس کا معنی ہے کسی چیز کا دوسری چیز سے ممتاز اور جدا ہونا۔ سیدہ کا لقب بتول اس لیے رکھا گیا ان میں وہ میلان نہیں تھا جو دوسری عورتوں میں مردوں کے لیے ہوتا ہے (اتحاف السائل،المناوی) آپ اس لیے بھی بتول ہیں کہ اپنے زمانے کی خواتین اور امت کی خواتین سے فضیلت، دین اور شریف الاصل ہونے کے اعتبار سے ممتاز تھیں اور دنیا سے کٹ کر اللہ رب العزت کی طرف متوجہ تھیں۔ (القاموس المحیط)آپ کمال معنویت اور فضیلت ومرتبت کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھیں بطور مشتے نمونہ از خروارے چند احادیث مبارکہ نذر ِقارئین کرام ہیں جن سے آپ کی عظمت وشان اظہر من الشمس ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آسمان کے ایک فرشتے نے ہماری زیارت نہیں کی تھی تو اس نے اللہ تعالیٰ سے ہماری زیارت کی اجازت مانگی، پھر اس نے مجھے بشارت دی یا فرمایا کہ خبر دی کہ میری بیٹی فاطمہ(سلام اللہ علیہا) میری امت کی خواتین کی سردار ہیں اور حسن وحسین (سلام اللہ علیہما) نوجوانانِ اہلِ جنت کے سید ہیں۔ (سنن نسائی)حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:’’ فاطمہ میری جان کا حصہ ہے پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:’’ بے شک فاطمہ سلام اللہ علیہا میری جان کا حصہ ہے ‘ اسے تکلیف دینے والی چیز مجھے تکلیف دیتی ہے اور اسے مشقت میں ڈالنے والا مجھے مشقت میں ڈالتا ہے ۔‘‘حضرت ابو حنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:’’ بے شک فاطمہ سلام اللہ علیہا میری جان کا حصہ ہے ۔ جس نے اسے ستایا اس نے مجھے ستایا۔‘‘حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب کے بعد جن سے گفتگو فرما کر سفر پر روانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاہوتیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جن کے پاس تشریف لاتے وہ بھی آپ ہی ہوتیں۔ لختِ جگرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کی وجہ سے آپ بے شمار فضائل وکمالات سے آراستہ تھیں، آپ کا گھرانہ ہی اہلِ بیت اور اہلِ کساء کے شرف سے مشرف تھا، آپ کی ماں افضل النساء تھیں،آپ کی آمد پر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبۃً کھڑے ہوجاتے ، آپ کے ہاتھ چومتے ، آپ کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر بچھاتے اور فرماتے کہ میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر سفر کی ابتداء وانتہاء آپ کے گھر سے ہوتی۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سلام اللہ علیہا کی رضا کو اپنی رضا اور آپ کی ناراضی کو اپنی ناراضی، آپ کی تکلیف کو اپنی تکلیف، آپ کی دشمنی کو اپنی دشمنی قرار دیتے ۔اس سے بڑھ کر اور آپ کی کیا فضیلت ہو گی کہ آپ کی عظمتوں کے گواہ خود تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ آپ سلام اللہ علیہا عبادت وریاضت میں بے انتہا شغف رکھتی تھیں ، آپ تہجد گزار اور کثرت سے روزے رکھنے والی تھیں۔ خوف ِ الٰہی سے ہر وقت لرزاں و ترساں رہتی تھیں۔ زبان پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا ذکر جاری رہتا تھا۔آپ سلام اللہ علیہاکی طبیعت عالیہ ہمہ وقت عبادتِ الہٰی کی طرف متوجہ رہتی تھی ،اپنے گھریلو کام کاج کی اَنجام دہی کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو عبادتِ الہٰی میں بھی مشغول رکھا کرتی تھیں ،خواہ آپ سلام اللہ علیہا کسی بھی کام میں ہوں ہر وقت یادِ الہٰی میں مگن رہتیں اور ایک لمحہ کے لیے بھی یادِ الہٰی سے غافل نہ ہوتیں، بیماری اور تکلیف کی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت ترک کرنے کا تو تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ۔ آپ سلام اللہ علیہا کے ذوقِ عباد ت کے متعلق حضرت شیخ عبد الحق محدث دِہلوی رحمۃ اللہ علیہ ’’ مدارج النبوۃ ‘‘ میں نقل فرماتے ہیں :’’ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :’’ میں نے اپنی والدۂ ماجدہ سیدتنافاطمہ سلام اللہ علیہا کو دیکھا کہ ( بسا اَوقات ) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں یہاں تک کہ صبح طلوع ہوجاتی ۔(مدارج النبوۃ ) بالجملہ ایک مسلمان خاتون کے لیے سیدہ زہرہ سلام اللہ علیہا کی سیرت پاک میں اُس کی زندگی کے تمام مراحل کے لیے قابل تقلید نمونہ موجود ہے ۔آپ کی پاکیزہ نقوشِ حیات دختران اسلام کے لیے مشعل راہ ہیں اور ان کی پیروی دنیا وآخرت میں فلاح اور کامرانی کی ضامن ہے ۔اللہ تعالیٰ ہماری ماؤں اوربہنوں کو آپ سلام اللہ علیہا کے نقش قدم پر چل کر دنیا وآخرت میں سرخروفرمائے ۔آمین