امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام کی مکہ مکرمہ سے کوفہ روانگی سے قبل مکہ معظمہ میں اکابرین امت سے مشاورت ہوئی ۔سب نے تشریف نہ لے جانے کا مشورہ دیا مگر آپ نے مشیت ِایزدی کے پیشِ نظراپناارادہ نہ بدلا جس کی تصمیم آپ کے اپنی روانگی سے قبل خطبے ،جو حاضرین کے سامنے دیا، سے واضح ہے ۔اس خطبے کا مضمون اپنے قارئین کی نذر کیے دیتا ہوں ملاحظہ کیجیے : ’’موت فرزندان آدم ( علیہ السلام ) کے لیے اس طرح لازم اور باعث ( زینت ) ہے جس طرح نوجوان عورت کے گلو کے لیے قلادہ ( ہار ) مجھے اپنے بزرگوں کے دیدار کا اس قدر سخت اشتیاق ہے جس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام دیدار یوسف علیہ السلام کے مشتاق تھے میرے لیے ایک مقتل تیار کیا گیا ہے جسے میں ضرور دیکھوں گا گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ جنگل کے بھیڑیے ( فوج یزید کے بھیڑیے بصور ت سپاہی) میرے جوڑوں کو جدا کر رہے ہیں اورمجھ سے ( اپنی آرزئووں اور تمنائوں کے ) شکم پُر کر رہے ہیں ۔اس دن سے بچنے کا کوئی چارہ نہیں جو قلم قضا سے لکھ دیا گیا ۔ ہم اہل بیت خدا کی رضا مندی پر راضی ہیں ہم اس کی آزمائش مصیبت و بلا پر صبر کریں گے اور وہ ہمیں اجرو ثواب عطا فرمائے گا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے جدا مجد سے ان کے پارہ سر شت میں وہ سب ان کے پاس جمع ہوں گے اور ان کی وجہ سے میرے نا نا جان علیہ السلام کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی ۔ خدا ان سے کئے ہوئے وعدے پورے فرمائے گا جو ہمارے بارے میں اپنی جان قربان کرنا چاہتا ہے اور ملاقات حق کے لیے اپنے نفس کو آمادہ کر چکا ہے وہ ہمارے ہمراہ چلے میں کل انشاء اللہ روانہ ہورہا ہوں۔‘‘ سیدنا امام حسین علیہ السلام کے مذکورہ خطبے سے یہ بات روز ِروشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ آپ کوکس قدریقین تھا اور حادثہ ٔ کرب و بلا کا خونی منظر گویا آپ کی آنکھوں کے سامنے عیاں تھا ۔ ہلال عید الاضحی ٰنمودار ہو چکا تھا اوریوم عید میں صرف دو دن باقی رہ گئے ۔دنیائے اسلام عید کی خوشیوں میں ہے اور حجاج کرام روز حج کی خوشی میں ہیں اور 61 ہجری کی صبح صادق8ذوالحجہ طلوع نہیں ہوئی کہ نواسۂ رسول ﷺراکب دوش رسول سیدنا امام حسین علیہ السلام رات کی تاریکی میں خانہ خدابیت اللہ میں داخل ہوئے ۔دو نفل پڑھے اور سجدے میں گرے اور بآواز بلند عرض کیا اے معبود حقیقی ۔ اس وقت جب کہ عیدالاضحیٰ سر پر ہے اور مسلمانان اسلام حج کے لیے تیرے اس گھر کی طرف آرہے ہیں اور تیرے محبوب کا نواسہ تیرے اس گھر سے جدا ہو رہا ہے ۔آج ان درو دیوار سے جن میں عمر کا ایک حصہ گزارا تھا بچھڑرہا ہوں اور جہاں شب و روز تیری رحمت و برکات کے نزول تھے وہاں سے اوجھل ہو رہا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ پیشگوئی مجھ پر صادق آجائے اور کعبۃ اللہ المقدسہ میری وجہ سے خون سے لبریز ہوجائے اور مسلمانان مکہ کا خون بے گناہ بہایا جائے ۔ اے احکم الحاکمین تو مجھے معاف فرما تجھے علم ہے اور تو جانتا ہے کہ میرا جانا کسی حکومت وقت کا مقابلہ نہیں اور نہ کسی کے خلاف کوئی اقدام ہے اور نہ کوئی اقتدار کا لالچ ہے ۔میرا سفر تیرے گھر کا احترام ہے اور میں اس سخت سفر میں چھوٹے چھوٹے بچوں اور محرمات کی تکلیف اس لیے گوارا کر رہا ہوں کہ وہ پیش گوئی میرے واسطے پوری نہ ہو جائے ۔اے الہٰ العالمین تو مجھ پر رحم فرما تو جانتا ہے کہ میں نے فاسق و فاجر کی بیعت نہیں کی اور نہ کرو ں گا اس لیے کہ یہ تیرے اور تیرے محبوب کے حکم کی تعمیل ہے وہ ہاتھ جس کو تیرے محبوب نے بوسہ دیا وہ پلید کے ہاتھ میں نہ جائے گا اوروہ زبان جس کو تیرے محبوب نے چوسا اس سے خوار کو امیر تسلیم نہ کروں گا ۔ تو میری خطائوں کو معاف فرما اور دشمنوں کے مظالم میں صبرو رضا پر قائم رکھنا ۔ صبرو رضامیرا شیوا ہے او راستقامت میرا راستہ ہے ۔کعبہ کے درودیوار کو بوسہ دیتے اور آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے کعبہ کے تحفظ و آبرو کو لیے ہوئے نماز فجر کے بعد یہاں سے جدا ہوتے اپنے مقام پر آتے ہیں اوراب سفر کی تیاری میں خود بھی اور اپنے خاندان مقدسہ کے چھوٹے بڑے سب تیاری میں ہیں کہ آج حرم خدا سے جدا ہونا ہے ۔ (سوانح کربلا ) چنانچہ سیدنا امام حسین علیہ السلام 8ذوالحج کو اپنے اہل بیت کے علاوہ موالی و خدام اور احباب، جن کی کل تعداد تقریباًدو سو کے لگ بھگ تھی، اپنے ہمراہ لے کر سفر عراق کو روانہ ہوئے مکہ معظمہ بیت الحرام سے اہل بیت رسالت کا یہ چھوٹا سا قافلہ روانہ ہوتا ہے تو ان کی جدائی نے باشندگان مکہ معظمہ کو مغموم و آبدیدہ کر دیا ۔مگر و ہ جانبازوں کے امیر لشکر اور فدا کاروں کے قافلہ کے سالارِ مردانہ ہمت کے ساتھ اہل مکہ اور حرم خدا کو الوداع الوداع کہتے ہوئے زبان اطہر سے قرآن کی یہ آیت پڑھتے ہیں جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے : ’’(اے حبیب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرمادیجیے ہمیں ہر گز(کچھ) نہیں پہنچے گا، مگروہی کچھ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا، وہی ہماراکار ساز ہے اورایمان والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔‘‘(سورہ ٔ توبہ :51)جب مکہ معظمہ سے باہر نکلے تو مدینہ طیبہ یاد آگیا اور مدینہ کی طرف منہ کرکے امیر قافلہ سیدنا امام حسین علیہ السلام آبدیدہ ہو کر فرماتے ہیں ۔’’ اے نانا جان !آپ کا نواسہ اس قابل نہیں چھوڑا گیا کہ اب مکہ سے جاتے ہوئے روضہ ٔ اطہر پر حاضری دے سکے اب میرے طرف سے دور سے ہی آخری سلام ہو۔‘‘اس طرح سے قافلۂ حسینی اپنی منزل کی جانب مکہ سے رواں ہوا۔ ماخوذ:(شہادت نواسۂ سیدالابرارومناقب آل نبی المختار)