آپ بنی اسرائیل میں جلیل القدر نبی تھے ۔ آپ نے بڑھئی کا پیشہ اختیار کر رکھا تھا جس سے گزر اوقات فرماتے بعد از عقد آ پ کے ہاں 120سال تک اولاد نہیں ہوئی۔ آپ بارگاہ رب العزت میں محو دعا رہتے نبی تھے آپ کی دعا اجابت کا لبادہ اوڑھتی مگر قدرت کوشان ولایت کا اظہار مقصود تھا۔ آپ اشاعت دین کے ساتھ ذریعہ معاش بھی اپنائے ہوئے تھے ۔ حضرت مریم سلام اللہ علیہا کی کفالت بھی خالق نے آپ کے ذمہ لگا رکھی تھی ۔ ایک دن آپ حضرت مریم سلام اللہ علیہا کے حجرہ میں داخل ہوئے تووہاں بے موسم پھل دیکھ کر جناب مریم سے سوال کیا یہ بے موسم پھل کس نے دیے ؟انہوں نے جواب دیا اللہ نے ۔آپ وہیں پر دعا میں مصروف ہوگئے ۔ دعا کی یااللہ اگر تواپنی پاکیزہ بندی کو بے موسم پھل عنایت فرما سکتا ہے تو اپنے اس بندے کو اولاد سے بھی نواز سکتا ہے آپ کی دعا کو اسی وقت شرف قبولیت حاصل ہوا۔ رب تعالیٰ نے ملائکہ کے توسل سے زکریا علیہ السلام کو بیٹے کی نوید سنائی ۔فرمایا:’’ اے زکر یاآپ کے ہاں فرزند تولد ہوگانام جن کا یحییٰ رکھنااور وہ نبی ہوگا۔ اس واقعہ سے ثابت ہواکہ مقبولانِ اِلٰہ کے قرب میں دعاکرناسنت انبیا ہے ۔ دعائے نبوت رنگ لائی حضرت زکریا علیہ السلام خوش بھی ہوئے اور محو ِ حیرت بھی کہ اس عمر میں! ملائکہ بولے رب قادر ہے اس کے لیے کوئی کام مشکل نہیں ۔وہ مشکلات میں آسانیاں پیدا فرماتا ہے ۔ آپ نے رب کعبہ کے حضور دعا کی اے مالک الملک جب میرے ہاں اولاد کی امید ہو گی اس وقت میری کیفیت کیا ہوگی ؟ارشاد ہوا:’’ اے زکریا نہ تجھ سے قوت ِ گویائی سلب کی جائے گی نہ تجھے کوئی مرض لاحق ہوگا مگر ان دنوں مخلوق سے کوئی بات نہیں کر پاؤ گے ۔چنانچہ ایسا ہی ہواتسبیح استغفار کے لیے آپ کی زبان چلتی ، کسی دوسرے سے ہم کلا م نہ ہو پاتے بشارت ایزدی کے مطابق حضرت زکریا علیہ اسلام کے ہاں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی رب کائنات نے یحییٰ علیہ السلام کو صغر سنی میں تورات کا علم عطا فرمادیا رب کائنات نے اپنی انوکھی نعمت کا ذکر یوں فرمایا کہ ہم نے زکریا علیہ السلام کو بیٹا عطا کیا اورانہیں نبوت سے سرفراز فرمایا، آسمانی کتاب کا علم عطا فرمایا اور ساتھ ہی ہم نے کم سنی میں فہم فراست علم وحلم اور عزم ودانائی عطا کی اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نبوت کسبی نہیں وہبی ہے ۔ نبی شکم مادر میں ہی نبی ہوتاہے ۔حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بچپن میں بچے کھیلنے نے کی دعوت دیتے تو آپ فرماتے ہم کھیلنے کے لیے نہیں پیدا کیے گئے ۔ یحییٰ علیہ السلام کا وجود حضرت زکریا علیہ السلام کے لیے رب العزت کی عنایتو ں کرشمہ تھا۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام خالہ زاد بھائی تھے ۔حضرت یحییٰ علیہ السلام کی والدہ اکثر حضرت مریم سلام اللہ علیہاسے کہتیں مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میرا بچہ تیرے بچے کوسجدہ ریز رہتا ہے سجدہ سے آداب مقصود ہیں جیسے آدم علیہ السلام کو ملائکہ نے اور یوسف علیہ السلام کو بھائیوں نے سجدہ کیا۔ حضرت زکریا علیہ السلامنے بنی اسرائیل کو وعظ و نصیحت کی ۔آپ نے ان کوجنت اور دوزخ کے بارے میں بتایاآپ فرماتے ہیں کہ اللہ ارشاد فرماتا ہے : ’’اور بے شک جہنم ان سب کا وعدہ ہے اس کے سات دروازے ہیں ہر دروازے کیلئے ان میں ایک حصہ بٹا ہوا ہے ۔ بیشک ڈر والے باغوں اور چشموں میں ہیں۔ ان میں داخل ہو سلامتی کے ساتھ امان میں‘‘۔ (سورۃ حجر: 43 تا 46) پھر فرماتے ہیں کہ شاید جنت کا ایک دروازہ زیادہ ہے کیوں کہ بعض لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل سے جائیں گے اور ان کے پاس کوئی خاص عمل بھی نہ ہوگا اور باقی سات دروازوں سے نیک عمل کرنے والے داخل کیے جائیں گے اور جو پرہیز گار ہوں گے وہ جنت کے باغوں میں ہوں گے اللہ ان سے فرمائے گا کہ اس میں سلامتی کی خاطر جمع سے رہوجب یہ وعظ و نصیحت حضرت یحییٰ علیہ السلام نے گوشہ میں بیٹھ کر اپنے باپ سے سنا ایک آہ مار کر اٹھے اور وہاں سے نکل کر پہاڑوں کی طرف چلے گئے مسلسل سات دن رات پہاڑوں پر روتے رہے اور ان کی ماں سات دن تک پہاڑوں پر جا کر ان کو تلاش کرتی رہیں۔وہ کہیں بھی نہ ملے پورے سات دن بعد ایک نوجوان نے خبر دی کہ آپ کا بیٹاسارا دن پہاڑوں پر روتا پھرتا ہے اور شب کو فلاں غار میں جاکر سو جاتا ہے ۔ان کی ماں پہاڑوں میں جاکر تمام دن اس غار کے سامنے بیٹھی رہی شب کو جب حضرت یحییٰ علیہ السلام آئے تو ماں کو دیکھ کر بھاگنے لگے تو ماں رورو کر کہنے لگی ذرا ٹھہر جا مجھ سے بات کر بولے اے اماں جان مجھے دوزخ کی یاد آتی ہے تو مجھے خوف آتا ہے نہ جانے اللہ مجھے کہاں رکھے گا بہت مشکل سے ان کی ماں ان کو گھر لے کے گئیں اس وقت حضرت یحییٰ علیہ السلام کی عمر صرف سات برس تھی انہوں نے مسجد میں جاکر گوشہ نشینی اختیار کی اور خدا کی عبادت میں مشغول ہوگئے ۔ (قصص الانبیاء صفحہ نمبر 340تا343) ادھر قوم بنی اسرائیل نے فساد برپا کر دیا۔ لوگ شریعت کے خلاف چلنے لگے ہر چند کہ حضرت زکریا علیہ السلام وعظ و نصیحت کرتے رہے لیکن وہ ان کی ایک نہ سنتے اور انکے قتل کرنے پرآمادہ ہوگئے آپ پھر انکونصیحت کرتے رہے ۔یہاں تک کہ قوم نے انکو قتل کرنے کا مصمم اِرادہ کرلیاتو آپ وہاں سے نکل آئے اور ایک درخت میں پناہ لی آپ کی قوم آئی توانکو سمجھ نہ آئی کہ ایک دم سے وہ کہاں غائب ہوگئے تو شیطان مردود نے انکی رہنما ئی کی اور حضرت زکریا علیہ السلام کا تھوڑا سا کپڑا جو درخت ملنے سے پہلے باہر رہ گیا تھاقوم کو دکھایا اور کہا کہ دیکھوں یہ انکا کپڑا وہ اسی درخت میں پنا لیے ہوئے ہیں تو قوم نے اس کو آرے سے چیر دیا جب آرا آپکی پسلیو ں کوپہنچا توآپ رو پڑے تو اللہ نے ان کی طرف وحی کی کہ اگر آپکی آواز بند نہ ہوئی تومیں ارض اور اہل ارض کو الٹ پلٹ کردوں گا تاکہ ان کوآپ پر ظلم کی سزا ملے پھر آپ نے رونا بند کردیا یہاں تک کہ ظالموں نے آپ کے دو ٹکڑے کر دیئے ۔