اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اولیا اللہ کا مقام بہت بلند ہے ،ان عظیم ہستیوں کے تذکرے قرآن وسنت میں موجود ہیں، انہی ا ولیا ئے کرام میں سے ایک عظیم ہستی شیخ ابو الفضل محمد بن حسن ختلی رحمۃ اللہ علیہ ہیں،آپ حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مرشد ِ گرامی ہیں،آپ علیہ الرحمۃ نے کشف المحجوب میں درج ذیل الفاظ کے ساتھ آپ کا تذکرہ کیا ہے : متاخرین صوفیاء میں میرے مرشدِ بحق ،زینِ اوتاد،شیخ عباد ابوالفضل حضرت محمدبن حسن ختلی رضی اللہ عنہ ہیں ۔طریقت میں میری پیروی وا قتداء ان کے ساتھ ہے ۔ آپ علیہ الرحمۃ علم تفسیر و روایات کے زبردست عالم تھے اور تصوف میں مسلک جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ رکھتے تھے اور آپ حضرت حصری رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے اور سیری کے مصاحب اور حضرت ابو عمر قز وینی اور ابوالحسن بن سالبہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر تھے ۔ 60سال عزلت نشین رہ کر مخلوق میں سے اپنا نام گم فرما چکے ہیں ۔زیادہ تر آپ کا قیام’’جبلِ لگام‘‘میں رہا ، کافی عمر پائی ۔آپ کی آیات و بر اہین بہت ہیں مگر آپ کا لباس متصوفین کی رسم کا نہ تھا اور رسمی چیزوں کے آپ سخت خلاف تھے ۔میں نے اس مرد خدا سے زیادہ بارُعب کوئی نہیں دیکھا ۔آپ سے میں نے سنا کہ فرمایا :’’دنیا مثل ایک دن کے ہے اور اس دن میں ہمارا روزہ ہے ۔‘‘ یعنی اس دنیا سے ہم نے کچھ حصہ نہیں لیا اور اس کی قید میں ہم نہیں آئے ،اس لیے کہ دنیا کی آفتیں ہماری دیکھی ہوئی ہیں اور اس کا جوحجاب ہے اس سے ہم واقف ہو چکے ہیں۔ ایک روز میں وضو کے لیے حضور کے ہاتھ پر پانی ڈال رہا تھا ،تو میرے دل میں خطرہ پیدا ہوا کہ جب تمام نظام عالم اور کاروبار دنیا قسمت پر موقوف ہے تو کس لیے اچھے خاصے آزاد لوگ امید کرامت وفیوض پر اپنے آپ کو پیروں ،فقیروں کا غلام اور بندہ ٔ حکم بناتے ہیں ۔(میرے دل میں یہ خطرہ گزار ہی تھا کہ)حضور فرمانے لگے :صاحبزادے ! جو وسوسہ تمہارے دل میں پیدا ہوا،ہمیں معلوم ہے ۔یادرکھواور اچھی طرح سمجھ لو کہ قضا و قد ر کے ہر حکم کے لیے اللہ تعالیٰ نے سبب رکھے ہیں ۔جب ظالم بچہ یعنی سپاہی زادہ کو اللہ تعالیٰ تاجِ عرفان و مملکت عشق سے نوازنا چاہتا ہے تو اسے توفیق توبہ دے کر اپنے کسی مقرب دوست کی خدمت میں مشغول فرما دیتا ہے ،تاکہ وہ خدمت گزاری اس کی عزت و کرامت کے لیے سبب بنے ۔‘‘اور مثل اس کے بہت سے لطائف ہر روز اوپر ظاہر ہوتے رہتے تھے ۔ جس روز کہ حضرت کی وفات کا وقت آیا ،آپ اس روز ’’بیت الجن‘‘میں تھے ۔یہ ایک گائوں ہے جو ’’دمشق ‘‘اور ’’بانیا رود‘‘ کے مابین ایک گھاٹی پر آباد ہے ۔آپ کا سرمبارک میری گود میں تھا اور مجھے ایک پیر بھائی سے دل میں رنج تھا ،جیسا کہ عام لوگوں کی عادت کے ماتحت لوگوں میں ہوتا ہے تو سرکار مجھ سے فرمانے لگے :بیٹا ! تمہیں ایک عقیدہ بتاتا ہوں اگر تم اس پر قائم ہوگئے تو تمام جہان کے غموں سے آزاد ہوجائو گے ۔ ’’یادرکھو!ہر جگہ اور ہر حال اللہ تعالیٰ جل شانہ ‘ کا پیدا کیا ہوا ہے ،خواہ وہ نیک ہو یا بد ،ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی کسی پیدا کی ہوئی چیز سے خصومت نہ رکھیں اور کسی کی طرف سے دل میں رنج نہ رکھیں ۔‘‘بس اس وصیت کے بعد اور کچھ نہ فرمایا اور جان جانِ آفرین کے سپر د فرما دی ۔واللہ اعلم بالصواب