عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر مکمل طور پر دل میں جاں گزیں ہو تو اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور ہوتا ہے ۔ احکام الٰہی کی تعمیل اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی عاشق کے رگ وپے میں سما جاتی ہے ۔ عشق سے انسان میں وہ قوت رونما ہوتی ہے جس سے جہاں بینی اور جہاں بانی کے جوہر کھولتے ہیں۔ اسی عشق کامل کے طفیل صحابہ اور صحابیات رضوان اللہ علیہم کو دنیا میں اقتدار، اختیار اور آخرت میں عزّت و وقار مرحمت کیا گیا۔ ان کے عشق کا کمال تھا کہ مشکل سے مشکل گھڑی میں ، انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں اور کٹھن سے کٹھن وقت میں بھی اتباع نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سر مو انحراف گوارا نہ کیا۔ خواتین صحابیات رضی اللہ عنہن میں بھی ایسی نادر مثالیں ملتی ہیں کہ عقل انگشت بدنداں رہ جاتی ہے ۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صحابیات رضی اللہ عنہن نے بھی بہت بہترین اور اعلیٰ مثالیں قائم فرمائیں۔وہ عشق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معمور تھیں اور ان کے پاکیزہ قلوب اس نعمت کے حصول پر مسرور تھے ۔ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اورعرض کیا کہ مجھے نبی علیہ السلام کی قبر مبارک کی زیارت کروا دیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے حجرہ مبارکہ کھولا وہ صحابیہ عشق نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس قدر مغلوب تھیں کہ زیارت کر کے روتی رہیں اور روتے روتے وصال فرما گئیں۔ ایک صحابی حضرت ربیعہ اسلمی رضی اللہ عنہ نہایت غریب نوجوان تھے ۔ ایک مرتبہ تذکرہ چلا کہ انہیں کوئی اپنی بیٹی کا رشتہ دینے کیلئے تیار نہیں ہے ۔نبی علیہ السلام نے انصار کے ایک قبیلے کی نشاندہی کی کہ ان کے پاس جا کر رشتہ مانگو۔ وہ گئے اور بتایا کہ میں نبی علیہ السلام کے مشورے سے حاضر ہوا ہوں تاکہ میرا نکاح فلاں لڑکی سے کر دیا جائے ۔ باپ نے کہا بہت اچھا ہم لڑکی سے معلوم کر لیں جب باپ نے پوچھا تو وہ لڑکی کہنے لگی،یہ مت دیکھو کہ کون آیا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ بھیجنے والا کون ہے ،چنانچہ فوراً نکاح کر دیا گیا۔ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا ایک حسین و جمیل صحابیہ تھیں‘ ان کیلئے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جیسے دولت مند صحابی کا رشتہ آیا۔ جب انہوں نے نبی علیہ السلام سے مشورہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسامہ سے نکاح کر لو۔حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے آپ کو اپنی قسمت کا مالک بنا دیا اور عرض کی کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرا معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیار میں ہے جس سے چاہیں نکاح کر دیں۔ یعنی میرے لئے یہی خوشی کافی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے میرا نکاح ہو گا۔ (سنن النسائی‘ کتاب النکاح)نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کا اپنے خالہ زاد بھائی ابوالعاص بن ربیع سے نکاح ہوا۔ ہجرت کے وقت نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نہ جا سکیں۔ ان کے خاوند بدر کی لڑائی میں کفار کے طرف سے شریک ہوئے اور مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ۔ اہل مکہ نے جب اپنے قیدیوں کیلئے فدیے ارسال کئے تو سیدہ زینب سلام اللہ علیہانے بھی اپنے خاوند کی رہائی کیلئے مال بھیجا جس میں وہ ہار بھی تھا جو سیدہ خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیہا نے ان کو جہیز میں دیا تھا۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب وہ ہار دیکھا تو سیدہ خدیجہ سلام اللہ علیہا کی یاد تازہ ہو گئی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورے میں یہ بات طے پائی کے ابوالعاص کو بلافدیہ چھوڑ دیا جائے ۔ اس شرط پر کہ وہ واپس جا کر سیدہ زینب سلام اللہ علیہاکو مدینہ بھیج دیں۔جنگ احد میں ام عمارہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر حضرت زید بن عاصم رضی اللہ عنہ اور اپنے دو بیٹوں حبیب رضی اللہ عنہ اور عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ جنگ میں شریک ہوئیں،ان کے پاس ایک خنجر تھا۔جب کفار نے نبی علیہ السلام پر ہلہ بول دیا تو یہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب آ کر حملہ روکنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم میں شامل ہو گئیں۔ دشمن پر خنجر سے وار کرتیں اور کفار کے تیر و تلوار کے ہر وار کو روکنے کی کوشش کرتیں۔ایک وقت ایسا آیا کہ ابن قمیہ ملعون نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تلوار کا وار کرنا چاہا تو انہوں نے اس کو اپنے کندھوں پر روکا جس سے بہت گہرا زخم آیا۔ ام عمارہ رضی اللہ عنہا نے پلٹ کر ابن قمیہ ملعون پر بھرپور وار کیا قریب تھا کہ وہ دو ٹکڑے ہو جاتا مگر اس نے دو زرہ پہن رکھیں تھی لہذا بچ نکلا۔ ام عمارہ رضی اللہ عنہانے اپنا کپڑا پھاڑ کر زخم پر باندھا اور کہا بیٹا اٹھو! اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کرو۔ اتنے میں وہ کافر جس نے ان کو زخم لگایا تھا پھر قریب آیا۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا: اے ام عمارہ رضی اللہ عنہا تیرے بیٹے کو زخمی کرنے والا یہی کافر ہے ۔ ام عمارہ رضی اللہ عنہا نے جھپٹ کر اس کافر کی ٹانگ پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ وہ گر پڑا اور چل نہ سکا اور سر کے بل لیٹ کر بھاگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ منظر دیکھا تو مسکرا کر فرمایا ام عمارہ رضی اللہ عنہا تو اللہ کا شکر ادا کر جس نے تمہیں جہاد کرنے کی ہمت بخشی۔ ام عمارہ رضی اللہ عنہانے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے دل کی حسرت ظاہر کی کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ دعا فرمائیں کہ ہم لوگوں کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت گزاری کا موقع مل جائے ۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت ان کیلئے ‘ ان کے شوہر کے لئے اور دونوں بیٹوں کیلئے دعا فرمائی کہ ’’اے اللہ ان سب کو جنت میں میرا رفیق بنا دے ‘‘۔ ام عمارہ رضی اللہ عنہا زندگی بھر یہ بات علی الاعلان کہا کرتی تھیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دعا کے بعد میرے لئے دنیا کی بڑی سے بڑی مصیبت بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ (مدارج النبوۃ) آج عشق کی ’لو‘ مدھم ہوتی جا رہی ہے ۔ نئی نسل جان کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بجائے کہیں اور دل لگا پیٹھی ہے ۔ ہمارا مرکز عشق و محبت تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں۔