خبر یہی ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ناراض ہوکر الگ ہونے والے دھڑے کے سربراہ عمر خالد خراسانی نے اپنے گروپ جماعت الاحرار کو دوبارہ کالعدم تنظیم میں ضم کر دیا ہے۔خالدخراسانی نے 2014 ء میں کالعدم تحریک طالبان سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور نئی تنظیم جماعت الاحرار قائم کی تھی۔بعد میں کمانڈر مکرم خان ،خالد خراسانی سے ناراض ہوگئے۔ انھوں نے ان سے علیحدگی اختیار کی اوراپنی تنظیم حزب الاحرار کی بنیاد رکھی۔کمانڈر مکرم خان نے بھی اب اپنی تنظیم کو کالعدم تحریک طالبان میں ضم کر دیا ہے۔ ناراض گروپوں کی کالعدم تحریک طالبان میں دوبارہ شمولیت سے ایک نئی بحث چھڑگئی ہے کہ کیا طالبان کے دوبارہ منظم ہونے سے وہ پاکستان کے لئے اسی طرح خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں جس طرح کہ چند بر س قبل تھے؟لوگوں نے یہ سوال بھی پوچھنا شروع کر دیا ہے کہ طالبان کی آپس میں عدم اتفاق کی وجہ سے کیا وہ دوبارہ اس قابل ہو جائیں گے کہ وہ جب ،جہاں اورجس کو چاہیں تو ماضی کی طرح نشانہ بنا سکتے ہیں؟ ان سوالوں کا جواب جاننے کے لئے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔اکتوبر 2001 ء میں جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو پوری پاکستانی قوم کی ہمدردیاں افغانستان کے ساتھ تھی۔پھر جب 2007 ء میں لال مسجد اسلام آباد کا سانحہ ہوا تو بھی قوم کی اکثریت کی ہمدردیاں اس آپریشن میں جاں بحق ہونے والوں کے ساتھ تھیں۔امریکا نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان کی سرحدیں ان کے لئے کھلی تھیں۔ اچھے اور برے ، دوست اور دشمن وہاں سے پاکستان منتقل ہو گئے۔جنگجو شدت پسندوں نے اپنا ٹھکانہ وفاق کے زیر انتظام سابق قبائلی علاقہ جات (سابق فاٹا) کو بنا یا۔ کاروباری شدت پسند جو کہ افغانستان میں انتہا پسندوں کے مالی سہولت کار تھے انھوں نے پاکستان کے بڑے شہروں کو اپنا مسکن بنایا اور یہاں کاروبار شروع کردیا۔جنگجو شدت پسندوں نے سوات میں ملا فضل اللہ گروپ میں شمولیت اختیار کر لی۔افغانستان سے آئے ہوئے ان شدت پسندوں کی وجہ سے ملا فضل اللہ کے افرادی قوت میں اضافہ ہوا۔ انھوں نے ملاکنڈ ڈویژن میں متوازی نظام حکومت قائم کیا۔وہ اپنے ریڈیو اسٹیشن سے ملک میں نفاذ اسلام کا پر چار کر تے رہے۔وہاں کی عوام خاص کر خواتین نے دل کھول کر ان کو عطیات دئیے۔2007 ء میں جب ملافضل اللہ کے خلاف سوات میں فوجی آپریشن راہ حق شروع کیا گیا تو لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے وہاں سے ہجرت کی۔ملا فضل اللہ اور ان کے ساتھی سابق فاٹا منتقل ہو گئے۔سوات آپریشن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔ سینکڑوں ابھی بھی لاپتہ ہے۔ املاک اور لائیوسٹاک کے کھربوں کا نقصان ہوا۔ ملا فضل اللہ اور ان کے ساتھیوں نے دوبارہ اپنے آپ کو سابق فاٹا میں منظم کیا۔اس دوران ان دہشت گردوں کو ان کے مالی سہولت کار جو شہروں میں کاروبار کرتے تھے ان کو پیسہ مہیا کرتے رہے۔بعض دینی مدارس اورچندایک عصری تعلیمی اداروں سے افرادی قوت بھی ان کو مہیا ہو تی رہی۔انڈیا کی سرپرستی ان کو حاصل تھی ، وہاں سے افغانستان کے ذریعے ان کے ساتھ مدد جاری رہی۔ملا فضل اللہ نے سابق فاٹا کے بے روزگار نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملالیا اور ان کو ماہانہ پندرہ سے بیس ہزار روپے وظیفہ دیتے رہے۔سمگلنگ میں ملوث مافیاز بھی تحریک طالبان میں شامل ہوگئے۔شہروں میں ان کے جو سہولت کار تھے وہ ملک کے بڑے شہروں میں ان دہشت گردوں کو کارروائیاں کرنے کیلئے رہائش کی سہولت فراہم کر تے رہے۔اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے انھوں نے بھتہ خوری بھی شروع کر دی۔جون 2015 ء میں پاکستان نے ان دہشت گردوں کے خلاف شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ضرب عضب شروع کردیا۔افغانستان کے ساتھ چونکہ سرحد کھلی تھی اس لئے یہ دہشت گرد وہاں سے افغانستان منتقل ہوئے۔ افغانستان منتقل ہوجانے کے بعد انھوں نے ننگرہار کو اپنا مرکز بنایا۔یہاں لال پورہ کے مقام پر ان کو ایک جدید ترین میڈیا سنٹر بھی بنا کر دے دیا گیا۔افغانستان منتقل ہوجانے کے بعد تحریک طالبان اب براہ راست انڈیا اور کابل کے ہاتھوں میں تھی۔انڈیا کے جاسوس ادارے '' را '' اور افغانستان کی '' این ڈی ایس '' نے ان کی ہرطرح سے مدد کی۔ان کو جنگی تربیت دی۔ جدید ہتھیار مہیا کئے۔خودکش جیکٹس اور خودکش حملوں کاگر ان کو سکھایا۔ افغانستان میں تربیت کے بعدیہ لوگ پاکستان میں کارروائیاں کرتے اور پھر فرار ہو جاتے۔ضرب عضب کے بعد پاکستان کی پالیسی سازوں نے فیصلہ کیا کہ اب کالعدم تحریک طالبان کے دہشت گردوں کو مزید فرار کا موقع نہیں دینا ، اس لئے فروری 2017 ء میں پورے ملک میں فوجی آپریشن ردالفساد کا آغاز کیا گیا۔اس آپریشن کا بنیادی مقصد دہشت گردوں کے بڑے شہروں میں موجود سہولت کاروں ،جرائم پیشہ مافیاز ،ان دینی اور تعلیمی اداروں کی نشاندہی تھی جو ان کو پناہ دیتے تھے اور افرادی قوت مہیا کرتے تھے۔ردالفساد سے پاکستان نے اس مقصد کو کامیابی سے حا صل کیا۔دوسرا فیصلہ پاکستان نے پاک ، افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کیاجس کی وجہ سے دہشت گردوں کی آمدورفت اگر ختم نہیں ہوئی تو مشکل ضرور بنا دی گئی۔ اب اگر ہم اس تمام پس منظر کو سامنے رکھیں توموجودہ حالات میں یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ دہشت گردوں کا دوبارہ منظم ہونا پاکستان کے لئے کوئی خطرہ نہیں۔ملک کے اندر ان کے سہولت کاروں کا بڑی حد تک خاتمہ کردیا گیا۔جو چند ایک موجود ہے وہ موجودہ حالات میں اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کا رسک نہیں لیں گے۔ملک کے اندر جو مالی سہولت کار تھے انھوں نے بھی ہاتھ کھینچ لئے ہیں۔ وہ دینی اور تعلیمی ادارے جو افرادی قوت مہیا کرتے تھے انھوں نے بھی اب سیق سیکھ لیا ہے۔فاٹا انضمام کے بعد اب ان کو سابق قبائلی علاقہ جات میں مفت میں رہائش کی سہولت بھی دستیاب نہیں۔سرحد پر باڑ کی وجہ سے ان کی آزادنہ نقل و حرکت کو مشکل بنادی گئی ہے۔سب سے بڑی بات کہ ان تمام اقدامات سے تحریک طالبان کی معیشت کمزور نہیں بلکہ ختم ہو گئی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انڈیا اور افغانستان اب بھی کالعدم تحریک طالبان کو پال رہے ہیں ،لیکن ملک کے اندر ان کے تمام جڑوں کو کاٹ دیا گیا ہے۔2014 ء میں امریکانے جو رپورٹ پیش کی تھی اس کے مطابق افغانستان میں تحریک طالبان کے جنگجوئوں کی تعداد پچیس ہزار تھی جبکہ 2019ء کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ تعداد تین سے پانچ ہزار کے درمیان ہے۔