اسلام آباد(خبر نگار) محکمہ جنگلات خیبر پختونخوا کی پنشن سے متعلق تنازعے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی ہے کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے قرض لے کر تنخواہیں اور پنشن دینا خطرناک ہے ۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے محکمہ جنگلات خیبر پختونخوا کے ملازم فضل مختار کی پنشن سے متعلق اپیل مسترد کردی جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ خیبرپختونخوا کے سرکاری ادارے تنخواہیں اور پنشن دینے کے بھی قابل نہیں ۔چیف جسٹس نے کہا خیبر پختونخوا کے لوگوں کو ملازمتوں پر لگا کرسرکاری اداروں کو بھر دیا گیا ،صوبائی حکومت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے لے رہی ہے ،یہ طریقہ خطرناک ہے کہ قرضہ لیکر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں۔چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا خیبرپختونخواہ میں سرکاری نوکری کے سوا روزگار کیلئے دوسرا کوئی ذریعہ نہیں۔ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے قرضے لینے کے ریمار کس پر عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت براہ راست عالمی بینک یا آئی ایم ایف سے فنڈز نہیں لے سکتی ۔قبل ازیں درخواست گزار محکمہ جنگلات کے ملازم کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ اس کا موکل 1989 پراجیکٹ پر فارسٹ گارڈ بھرتی ہوا اور 1994 میں فارغ کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ بعد ازاں انھیں فراش بھرتی کیا گیا لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کی ادائیگی کے دوران چار سالہ سروس کو شمار نہیں کیا گیا۔ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے بتایا کہ درخواست گزار پہلے پراجیکٹ کے کنٹریکٹ ملازم تھے اور پراجیکٹ ختم ہونے پر کنٹریکٹ بھی ختم ہوا۔ چیف جسٹس گلزار نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخواہ قاسم ودود سے استفسار کیا کہ کیا خیبرپختونخوا کے سرکاری ادارے تنخواہیں اور پنشن دینے کے قابل نہیں؟۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دئیے کہ خیبر پختونخواہ کی معیشت کو جو نقصان ہورہا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ سمگلنگ ہے ، خیبر پختونخوا میں انڈسٹری کو بڑھانے کیلئے سمگلنگ روکنا ہوگا،کے پی کے میں سمگلنگ میں ملوث عناصر کو ختم کرنے کیلئے موثر اقدامات ضروری ہیں۔عدالت نے درخوسست گزار اور سرکاری وکیل کے دلائل سننے کے بعد معاملہ نمٹا کر اپیل مسترد کردی۔ادھر سپریم کورٹ نے فراڈ کے ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے جعلسازی کے ملزم آصف اللہ کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی تو ملزم کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ اس کا موکل ایک سال نو ماہ سے جیل میں ہے اور مستقبل قریب میں ان کے خلاف دائر مقدمے کے فیصلے کا امکان نہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریما رکس دیئے کہ ملزم کے خلاف جعلسازی کے واضح الزامات ہیں اوروہ 3 سال تک مفرور رہا، کسی اتھارٹی یا لائسنس کے بغیر لوگوں سے فراڈ کرکے پیسہ اکٹھا کرکے غیر قانونی کام کیا،میرٹ پر ضمانت نہیں بنتی۔عدالت نے احتساب عدالت کو ملزم کے مقدمے کا چھ ماہ میں فیصلہ کرنے کا حکم دیدیا۔