گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیا جس میں وزیر اعظم نے بڑے بے باک جوابات دیئے۔ایک سوال یہ تھا کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کرے گا اس سوال کے جواب میں عمران خان نے جواب دیا۔’’ہرگز نہیں‘‘۔ وزیر اعظم کا جواب اتنا بے ساختہ اور بے لچک تھا ایک لمحے کے لئے اینکر ششدر رہ گیا اور اس نے اپنا سوال دہرایا مگر عمران خاں کا موقف اٹل تھا۔ایک موقع پر اینکر نے سوال کیا کیا پاکستان افغانستان میں فوجی کاروائی کے لئے اپنی فضائی حدود کو استعمال کرنے کی اجازت دے گا اس سوال کا جواب بھی وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے انکار کی صورت میں تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب وزیر اعظم نے امریکی حکام کو دو ٹوک جواب دیا۔جب سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے پاکستان کا دورہ کیا تو عمران خان نے اس کے ساتھ ملاقات سے گریز کیا اور آئی ایس آئی کے سربراہ نے سی آئی اے کے ہیڈ سے مذاکرات کئے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم کسی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے اور اس بات کو دہرایا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل سیاسی ہے جنگ نہیں اور امریکہ نے بہت عرصہ بعد اس بات کا ادراک کیا ہے۔افغانستان میں امن صرف اس صورت ممکن ہے جب وہاں ایک نمائندہ حکومت ہو جو طالبان کے بغیر ممکن نہیں۔اینکر نے ایک موقع پر چین میں مسلمانوں پر ہونے والے تشدد کا ذکر کیا جس کے جواب میں عمران خاں نے مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں ہونے والے مظالم پر مغربی میڈیا کی منافقت کو نشانہ بنایا۔ یہ انٹرویو کافی تند سوالات اور ان کے ترش جوابات پر مشتمل تھا۔ پردے کے متعلق بھی سوالات ہوئے اور ان کے جوابات بھی وزیر اعظم نے تسلی بخش دیئے۔ وزیر اعظم کے اس انٹرویو نے مقامی اور عالمی سطح پر کافی سنسنی پیدا کر دی ہے۔پاکستان کے لوگ اپنے وزیر اعظم کی تحسین رہے ہیں کہ کوئی تو ہے جو امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتا ہے اور ڈو مور کے جواب میں بہت ہو گیا کہہ سکتا ہے۔اگر ہم پاکستان کی تاریخ کو دیکھیں تو یہ امریکہ کے سامنے جی حضوری کی تاریخ ہے۔سب سے پہلے لیا قت علی خان نے روس کا دورہ کرنے کے بجائے امریکہ کا دورہ کیا جبکہ دعوت پہلے روس کی طرف سے آئی تھی۔جنرل ضیاالحق نے روس کے خلاف امریکہ کے ساتھ ملکر افغانستان میں جہاد کا آغاز کیا۔پرویز مشرف نے ایک ٹیلیفون کال پر امریکہ کو اپنی سر زمین افغانستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد دہشت گردی کی جو لہر پاکستان میں آئی اس کی تاریخ گواہ ہے۔ جب اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا تو اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے احتجاج کرنے کے بجائے امریکی صدر بارک ابامہ کی تعریف کی۔ جناب نواز شریف کارگل کے مسئلے پر امریکی صدر کلنٹن کی تمام شرائط کو مان کر آئے۔ عمران خان پاکستان کے تیسرے حکمران ہیں جنہوں نے امریکی احکام کو نہ کہنے کی جرات کی۔ ذولفقار علی بھٹؤ نے جب پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تو امریکی حکام نے ان کو اس کام سے منع کیا توع امریکہ نے بدترین نتائج کی دھمکی دی جب بھٹو اس کام سے باز نہ آئے تو ان کے خلاف پاکستان قومی اتحاد بنایا گیا اور ایک تحریک ان کے خلاف چلائی گئی ۔اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاالحق نے 5 جولائی 1977ء کو فوجی بغاوت کی اور بھٹو کو قتل کے ایک مقدمہ میں موت کی سزا سنا دی گئی۔1988ء میں جب روس افغانستان سے جا رہا تھا تو جنرل ضیا نے افغانستان میں قائم ہونے والی حکومت سے اختلاف کیا تو امریکی حکام نے جنرل ضیا کا کام تمام کر دیا۔وہ جنرل ضیا جو امریکہ کے سب سے قریبی ساتھی تھے ان کو بھی امریکی حکام نے معاف نہیں کیا۔ اب عمران خان نے امریکی حکام کو فوجی اڈے دینے سے انکا ر کیا ہے دیکھتے ہیں اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے عمران خان کے پیچھے چین ایک سپر پاور کی شکل میں موجود ہے سی پیک بھی امریکہ کو ایک کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے ۔ امریکہ کسی نہ کسی حیلے سے اس پراجیکٹ کو فیل کرنے کی کوشش کرے گا۔اب مغربی میڈیا بھی عمران کے پیچھے پڑ سکتا ہے آنے والے دنوں میں ہمیں بہت کچھ سننے اور دیکھنے کو ملے گا۔ یہ بات بھی نہیں ہے کہ کوئی ملک امریکہ کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا۔ کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے ساری عمر امریکہ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کی۔وینزویلا کے ہوگو شاویز ابھی چند سال پہلے کی بات ہے۔ایران نے اکثر امریکہ کو ٹف ٹائم دیا یہ الگ بات ہے کہ امریکہ کے ساتھ مخاصمت میں ایران نے بہت پریشانی بھی دیکھی ہے۔اگر ہم امریکہ کے متاثرین کی بات کریں تو ان میں لیبیا کے کرنل قذافی، سعودی عرب کے شاہ فیصل اور عراق کے صدر صدام حسین شامل ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی قوم کس طرح عمران خان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہوتی ہے پاکستان کے عوام امریکہ مخالف اور حکمران امریکی نواز رہے ہیں پہلہ موقع ہے جب حکمران اور عوام ایک پیج پر ہیں۔ عمران خان کے اسامہ بن لادن کو شہید والے بیان کا چرچا بھی اب مغربی میڈیا میں خوب ہو گا۔پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے افغان جرنلسٹ نے عمران خان کے اس بیان کی وضاحت مانگی تھی اور شاہ محمود سے سوال کیا تھا کہ کیا وہ بھی اسامہ بن لادن کو شہید گردانتے ہیں۔شاہ محمود قریشی نے اس سوال کے جواب سے گریز کیا اور آگے بڑھنے کو کہا۔اب ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ افغانستان میں امن قائم کرنے کے چکر میں ہم پاکستان کا امن خراب نہ کر لیں۔ہمیں بہت احتیاط کے ساتھ چلنا ہو گا امریکہ کوئی بھی بہانہ بنا کر ہم پر پابندیاں لگوا سکتا ہے۔پاکستان کی معاشی حالت ابھی اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔