مکرمی !ملک کے روزبروز خراب ہوتے حالات کے پیش نظر تمام سیاسی جماعتوں کو آخری (کم ترین) سطح کا ہی سہی لیکن کوئی نہ کوئی ضابطہ اخلاق طے کرنا پڑے گا،اور اس سلسلے میں ہر جماعت سے بات چیت کرنے کے کیلئے لائحہ عمل بنانا پڑے گا ۔ ملک کو معاشی، سیاسی اور سماجی مسائل کا سامنا ہے، سب کو قومی ایجنڈے پر متفق ہونا وقت کا تقاضا ہے- تمام سیاسی جماعتیں مل کر ملک کے مسائل حل کریں۔سیاسی اوردیگر مقتدر قوتوں کواس امر کا یقین ہونا چاہئے کہ جمہوری نظام میں غیر سنجیدہ سوچ صرف جمہوریت ہی نہیں ملک کے لیے بھی نقصان دہ ہے، ماضی کی حکومتوں نے سیاسی انتہا پسندی سے کام لیا، کھیلوں گا اور نہ کھیلنے دوں گا کی پالیسی سے پاکستان اور عوام کا نقصان ہوچکا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج تک ملک آئین کی وجہ سے چل رہا ہے اور آئین کے تحت ہی چلے گا تو ترقی کرے گا، تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی آئین کے خلاف فیصلہ لیا نقصان ہی ہوا۔ 74 سال گزرنے کے بعد ہم آج بھی امتحان سے گزر رہے ہیں۔ ملک کو چلانے کے لیے ضروری ہے کہ آئین کے دیئے گئے اصولوں کو مد ِنظر رکھا جائے۔ تاریخ میں کبھی اتنے بڑے بحران کا سامنا نہیں رہا اِس لیے تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ ایسے رویے اپنائیں جن سے ملک اور قوم کا نقصان نہ ہو۔ ملک کو ایک نہیں بلکہ کئی بحرانوں کا سامنا ہے، ایسے میں ہر کسی کی نظر ملک کی سیاسی قیادت پر ہے۔اہل سیاست کو یہ بھی بات سمجھنی چاہئے کہ یہ وقت بدلے کی سیاست، مقدمے بازی، طنز و طعنے اور روز کوئی نہ کوئی نیا شوشہ چھوڑنے کا نہیں ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انفرادی طور پر ہر سیاستدان یہ کہتا ہے کہ مذاکرات ہونے چاہئیں، ملک کی خاطر مل بیٹھنا چاہئے لیکن اِس کی کوئی عملی تفسیر نظرنہیں آ رہی۔ حکومتی جماعتیں اپنی صفیں درست کریں، نیک نیتی سے ہاتھ بڑھائیں اور حزبِ اختلاف پر بھی لازم ہے کہ بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیں۔ ریاست کا کاروبار چلانے کے لئے ایک نئے میثاق سیاست کی ضرورت ہے جس میں حسب ِ توفیق و استطاعت ہر سیاسی جماعت کو حصہ ڈالنا چاہئے، یہی کاوش آگے چل کر میثاق معیشت کی بنیاد فراہم کرنے میں بھی مدگار ثابت ہو سکتی ہے۔ عوام کا دل جیتنے کے لیے نعرہ بازی اور سیاسی انتقام کی بجائے صحیح معنوں میں "ریلیف" دینے پر غور کریں۔ (قاضی جمشیدعالم صدیقی)