غیر محرم سے پردہ کا اہتمام کرنا ایسے ہی لازم ہے جیسے نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج کا اہتمام کرنا ہے ۔ جس طرح یہ عبادات فرض ہیں اسی طرح شرعی پردہ کرنا بھی فرض عین ہے ،یہی سبب ہے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں پردے کے حکم کو شریعت کے دوسرے احکام پر مقدم ذکر فرمایا ہے ، سورۂ احزاب کی آیت نمبر32میں ارشاد ربانی ہے :’’ اے مومن عورتو! تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت کرو اور تم نماز کی پابندی رکھو، زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا کہا مانو۔‘‘مذکورہ بالا آیات کے تحت مسلمان عورتوں کے لئے گھروں میں ٹھہرے رہنے کو واجب قرار دیا ہے ۔تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت نائلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو گھروں سے نکلنے سے منع فرمایا ہے اور انہیں حکم دیا کہ ہے وہ اپنے گھروں میں رہیں اور جنازوں کے پیچھے نہ جائیں اور نہ مساجد میں آئیں اور نہ جمعہ میں شامل ہوں۔تفسیر الماوردی میں حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ اس امت کی خواتین کو یہ حکم دیاگیا ہے اور امام مقاتل کہتے ہیں کہ اس امت کی خواتین کو تمام خواتین سے زیادہ حق ہے کہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔ امام طبرانی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا :عورتوں کو اپنے گھروں سے باہر نکلنے کا حق نہیں ہے مگر اس وقت ( جب وہ کسی شدید ضرورت کے پیش آنے کی وجہ سے گھر سے باہر نکلنے پر ) انتہائی مجبور ہوں۔ ترمذی میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عورت چھپانے کی چیز ہے ، کیونکہ جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاک جھانک کرتا ہے ۔مشکوٰۃ شریف میں ہے کہ نبی اکرم نے ارشادفرمایا: جب کوئی مرد کسی غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو وہاں ان دونوں کے علاوہ تیسرا شیطان ہوتا ہے ۔ اور غیر محرم رشتے وہ ہیں جن سے عورت پر پردہ کرناایسے ہی فرض ہے جس طرح اجنبی مردوں سے پردہ کرنا فرض ہے ۔ اور وہ یہ ہیں،(1) خالہ زاد (2) ماموں زاد(3) چچازاد(4) پھوپھی زاد(5) دیور(6) جیٹھ(7) بہنوئی(8) نندوئی(9) خالو(10)پھوپھا(11) شوہر کا چچا(12) شوہر کاماموں(13) شوہر کا خالو(14) شوہر کا پھوپھا(15) شوہر کابھانجا۔ یہاں بعض عورتوں کو یہ اشکال ہوتا ہے کہ جب اتنے سارے رشتہ داروں سے پردہ کرنا فرض ہے تو پھر وہ کون سے مرد رہ جاتے ہیں جن سے پردہ نہیں ہے اس طرح تو شریعت میں بہت تنگی ہے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ شریعت میں کوئی تنگی نہیں ہے ۔سورۂ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ احکام کا مکلف نہیں بناتا‘‘ محارم رشتوں میں وہ اشخاص ہیں جن سے عورت کو پردہ نہیں ہے اور وہ محارم رشتے یہ ہیں: شوہر، باپ، دادا ، پڑدادا، بیٹا، پوتا، پڑپوتا، نواسہ، چچا( حقیقی، علاتی، اخیافی) بھائی، (تینوں قسم کے ) بھتیجے ( تینوں قسم کے بھائیوں کے بلاواسطہ یا بالواسطہ) بھانجے ( تینوں قسم کے بہنوئی بلاواسطہ یا بالواسطہ) ماموں( تینوں قسم کے ) نانا، پڑنانا، سسر، داماد، شوہر کے بیٹے ، رضاعی باپ، رضاعی بیٹا، رضاعی بھائی، رضاعی چچا، رضاعی ماموں وغیرہ الغرض یہ فرعوعات ملا کر تیس سے زائد قسم کے مردوں سے پردہ کرنا فرض نہیں ہے ۔ لہٰذا یہ اشکال پیش کرنا کہ شریعت میں تنگی ہے بالکل جاہلانہ اور فضول ہے ۔ وہ خواتین جو پردہ نہیں کرتیں ان کے لئے شریعت مطہرہ میں سخت وعید آئی ہے ، امام مسلم نے روایت کیا ہے اور مشکوٰۃ شریف میں ہے : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:تین قسم کے لوگ جہنمی ہیں ان کو میں نے نہیں دیکھا (یعنی میرے ظاہری زمانے میں یہ لوگ موجود نہیں ، بعد میں پیدا ہوں گے ) ایک تو وہ (ظالم) جن کی باتوں میں گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے ، جن سے لوگوں کو (ظلمًا) ماریں گے ،دوسری وہ عورتیں ہوں گی جو ننگے لباس والی ہوں گی ( یعنی باریک لباس میں ملبوس ہوں گی یا نیم برہنہ لباس میں ، چال چلن کے اعتبار سے ) مردوں کی طرف مائل ہونے والی اور مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی ہوں گی، ان کے سر بختی اونٹ کے کوہان کی طرح ہوں گے ( یعنی ہندو عورتوں کی طرح سر کے اوپر جوڑا باندھیں گی) نہ تو جنت میں داخل ہوں گی اور نہ ان کو جنت کی خوشبو ملے گی، حالانکہ جنت کی خوشبو جنتیوں کو بہت دور کے فاصلے سے ملے گی۔ خواتین کو شرعی پردے کا ماحول فراہم کرنا مردوں کی ذمہ داری ہے اور شرعی پردے کا اہتمام کرنا عورتوں کی ذمہ داری ہے ۔ مردوں کی ذمہ داری میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اپنے گھر کی خواتین کو پردے کا اہتمام کروائیں، ان کے لئے ایسا ماحول پیدا کریں جس میں خواتین کے لئے شرعی پردے کے حکم پر عمل کرنا آسان اور ممکن ہوسکے ۔ اگر مرد گھر کی خواتین کو شرعی پردے کا ماحول فراہم نہ کریں بلکہ ان کو بے پردگی پر برانگیختہ کرے اور ان کو باہر غیر محرم مردوں میں جانے کی ترغیب دے اور ان کے بے پردگی پرانہیں نہ روکے اور نہ کسی قسم کی مخالفت کرے تو ایسے مردوں کو دیوث قرار دیاگیا ہے ۔اور ایسے مردون کو جنت سے محرومی کی وعید سنائی گئی ہے ۔ فرمان نبوی ﷺہے کہ تین قسم کے لوگوں پر جنت کو حرام قرار دیاگیا ہے ۔ (1) شراب کا عادی(2) والدین کی نافرمانی کرنے والا(3) وہ دیوث جو اپنے گھروں میں برائی کو برقرار رکھتا ہے ( مشکوٰۃ) جب مرد گھر میں آئے تو کھنکھارتے ہوئے آئے تاکہ خواتین فورًا پردہ کرلیں، اور مرد کو چاہیے کہ وہ سیدھا اپنے کمرہ میں چلا جائے ۔ اسی طرح استنجاء وغیرہ کے لئے جانے کی ضرورت ہو تو اسی طرح کھنکھارے تاکہ جو عورتیں اپنے کمروں سے باہر صحن میں کام کاج میں مصروف ہیں وہ پردہ کرلیں اور مرد یہ بھی اہتمام کرے کہ بھاوج کے مخصوص کمرے میں ہرگز نہ جائے ، اگر خواتین کو کچھ سودا سلف منگواناہو یا دیور یاجیٹھ سے کوئی ضروری بات کرنی ہو تو دیوار کے پیچھے سے آوازمیں لچک دیئے پیدا کئے بغیر اسے بلائے ،اگر کوئی چیز لینی یا دینی ہو تو ہتھیلی ظاہر کئے پردے کے پیچھے سے بغیر دینے یا لینے کی اجازت ہے ،صرف ہاتھ باہر نکال کر کوئی چیز دے اور لے سکتی ہے بشرطیکہ مکمل ہاتھ نظر نہ آئے ،کھانا وغیرہ کھانے کے موقع پر بھی عورتوں اور مردوں کو الگ الگ بیٹھ کر کھانا چاہیے تاکہ پردہ کرنے میں آسانی رہے ۔