مکرمی !ایک وہ دور تھا جب قحط کے زمانے میں چوری کی سزا اٹھا دی گئی تھی، اور ایک آج کا دور ہے جس میں انسانیت کے بنائے قانون بھی کسی حکمت کے تحت منسوخ نہیں ہو سکتے۔ ملکِ پاکستان جہاں عام حالات میں 24.3 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، پھر کورونا کی بات کی جائے تو اس سے بھی سب سے زیا دہ متاثر ہونیوالا طبقہ غریب ہے، ایک سروے کے مطابق غریبوں کی تعداد 5 کروڑ سے بڑھ کر 6 کروڑ ہو سکتی ہے۔ کوئی بیماری ہو یا آفت سماوی، یا کوئی مصنوعی آفت، سب سے پہلے غریب اس کا شکار بنتا ہے۔ لیکن ہمارے بنائے کچھ اپنے ہی قاعدے اور قانون غریب کو بھکاری بننے پر مجبور کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے ملکی نظام کو منظم کرنے میں کچھ ضابطے اور قانون نہایت ضروری ہیں، لیکن عالمی حالات کے پس منظر میں کچھ نہ کچھ ترمیمات کر لی جائیں، تو غریب کا ہاتھ تھاما جا سکتا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ایک انسان (دیگر بہت ساروں کی طرح ) اپنا پیٹ پالنے کیلئے سڑک کنارے کھڑا بھیک نہیں مانگتا ، بلکہ رزق تلاش کرتا ہے۔ وہ عزت کی روزی روٹی کمانا چاہتا ہے، وہ غریب ہے، ان پڑھ ہے، اسے صرف اتنا معلوم ہے کہ انتظامیہ اس کا سامان اٹھا سکتی ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف اقتصادی سروے اور محتاط اندازے ہمیں اس بات سے آگاہ کرتے ہیں کہ ملک میں غریب افراد کی تعداد 5 کروڑ سیبڑھ کر 6 کروڑ ہو سکتی ہے، لیکن دوسری طرف غریب کو ریلیف فنڈ کے علاوہ ریلیف ملتا دکھائی نہیں دیتا۔ (احسن اقبال سِرِّ عَیاں)