اسلام آباد (سپیشل رپورٹر،92 نیوزرپورٹ،مانیٹرنگ ڈیسک، نیوا ایجنسیاں) وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئی۔ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ تحریک عدم اعتماد پیش کر نے کی اجازت ملنے پر اپوزیشن اراکین نے ڈیسک بجائے اور نعرے لگائے ۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف کی طرف سے پیش کی گئی ۔قرار داد کے متن میں کہا گیا ہے کہ "اس ایوان کی رائے ہے کہ وزیر اعظم عمران خان،قومی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت کا عتماد کھو چکے ہیں،لہذا انہیں عہدے پر برقرار نہیں رہنا چاہیے ۔ تحریک پیش ہونے کے بعد ڈپٹی سپیکرنے اس کے حق میں ارکان کی گنتی کرائی ۔ حکومت کی اتحادی ایم کیو ایم ، مسلم لیگ (ق) اور منحرف اراکین غیر حاضر رہے ، جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ شاہ زین بگٹی اور آزاد رکن علی نواز شاہ نے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کی جبکہ رکن اسمبلی علی وزیر جیل میں قید ہونے اور پیپلز پارٹی کے رکن جام عبد الکریم ملک سے باہر ہونے کے باعث شریک نہ ہوسکے ۔تحریک عدم اعتماد کی 161 ارکان نے حمایت کی۔ تحریک پر ووٹنگ کے دوران حکمران جماعت کے ارکان آصف علی زرداری، شہباز شریف پر بوٹ پالش اور چیری بلاسم کی آوازیں کستے رہے جبکہ اپوزیشن کے خلاف دیکھو دیکھو کون ہے ، چور ہے چور ہے کے نعرے بھی لگائے گئے ۔ ڈپٹی سپیکرنے رولنگ دیتے ہوئے کہاکہ ایک ہفتے کے اندر ووٹنگ ہو گی، 31 مارچ کو تحریک پر بحث کا آغاز ہوگا اس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس جمعرات سہ پہر چار بجے تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔اجلاس سے قبل سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ملاقات کرنے والے اپوزیشن نمائندوں کویقین دہانی کرائی کہ ایک ہفتے کے اندراندر عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوگی۔نوابزادہ شاہ زین بگٹی نے کہا ہے کہ کسی اور کی ذمہ داری کا ملبہ اپنے سر نہیں لے سکتا،امید ہے کہ اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں اتحادیوں کی جانب سے اہم فیصلے سامنے آئیں گے ۔دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 ممبران قومی اسمبلی تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دیں گے ۔اسلام آباد میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد مگسی، پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان، پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری، سابق صدر آصف علی زرداری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جو حکومت بنے گی وہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے کام کرے گی،4 ایم این ایز کا ساتھ دینے کے فیصلے کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ شہباز شریف نے غیر ملکی مداخلت کے الزام پر وزیراعظم کو چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان وہ خط قومی اسمبلی میں لائیں اگرغیر ملکی مداخلت ثابت ہوئی تو میں عمران خان کے ساتھ کھڑا ہونگا، عمران خان کیخلاف ہماری جنگ سیاسی ہے ، جیسے میرے خلاف فرنٹ مین کا الزام لگا یہ بھی ویسا ہی خط ہے ۔آصف علی زرداری نے کہا کہ یہ ان کی مہربانی ہے کہ میرے پاس آئے اور مجھے عزت دی ، ابھی عدم اعتماد کا موسم ہے تو بہت جلدی ہم شہباز شریف کو وزیراعظم بنائیں گے اور بلوچستان سے وزیر لیں گے ،صدر پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ متحدہ اپوزیشن کا ساتھ دینے پر خالد مگسی اور ارکان اسمبلی کا شکریہ ادا کرتے ہیں، عمران اپنی ناکامیوں پر روئے ،عمران کو مسلط کرنا امریکہ، یورپ اور اسرائیل کی حماقت تھی، ق لیگ کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کی گنجائش موجود ہے ۔چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ دنیا کی پہلی سازش ہوگی جہاں سازش کرنے والے خط لکھتے ہیں ، اپوزیشن کے نمبر شروع سے پورے ہیں، ہم نے یہ کام اتحادیوں کے ساتھ مل کر کرنا ہے ، سیاسی اختلافات تو چلتے رہتے ہیں، ہماری تعداد پوری ہے اور اب ہمارے نمبر بڑھتے جارہے ہیں، خان صاحب بچ نہیں سکتے ۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد مگسی کا کہنا تھا کہ سارے معاملات مشاورت کے ساتھ طے کیے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ نئے انداز میں ملک کو سنبھالا جائے ۔اخترمینگل کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے ہمیں نظر انداز کیا، ہمارے مسائل پر توجہ کے بجائے ہمارا مذاق اڑایا گیا، ، تمام ہتھکنڈے عدم اعتماد میں تاخیر کے لیے استعمال کیے گئے ۔علاوا زیں مسلم لیگ (ن) نے ایم کیو ایم کے تمام مطالبات کو تسلیم کرلیا ۔میڈیا رپورٹ کے مطابق عدم اعتماد کے معاملے پر احسن اقبال، رانا ثنا اﷲ، ایاز صادق، سعد رفیق نے خالد مقبول،عامر خان، وسیم اختر، خواجہ اظہار اور امین الحق سے ملاقات کی۔ذرائع نے بتایا کہ (ن )لیگ نے تمام تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔سید مراد علی شاہ نے ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ متوقع معاہدے کے لئے ٹی او آرز تیار کر لیے ۔