یہ ماننا پڑے گا کہ دشمن نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں چال قیامت کی چلی ہے۔ اگر بروقت اس کا تدارک نہ کیا گیا تو خاکم بدہن، کشمیری چند برس میں اپنی ہی دھرتی پر اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے اور بھارت کا غاصبانہ قبضہ وہاں مزید مضبوط و مستحکم ہوگا۔ اور یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہونا۔ پاکستان پر دبائوبڑھانے کے لیے بھارت نے پہلے ہی آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان پرحق جتانا شروع کردیا ہے۔ حال ہی میں بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دیول نے سرکاری ٹیلیویژن دوردرشن کو یہ ہدایات دی ہیں کہ موسم کی خبروں میں آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد، سرحدی شہر میرپور اور گلگت کو بھی شامل کرے۔ بھارت کے کئی نجی چینل بھی دوردرشن کی تقلیدکر رہے ہیں۔ یہ واضح اشارہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے لیے کی جانے والی پاکستانی سفارتی کوششوں اور بیانات کے جواب میں بھارت مزید سخت اور جارحانہ انداز اپنا رہا ہے جس میں فائر بندی لائن پر ہونے والی روزمرہ کی خلاف ورزیوں سے لے کر دہشتگروں کی کھلم کھلا حمایت اور امداد سبھی شامل ہیں۔ بھارت کے مکروہ عزائم کے حوالے سے یہ اندیشے نہ بلا وجہ ہیں اور نہ مبالغہ آرائی پر مبنی۔ ان کی ٹھوس بنیاد ہے۔ 5 اگست 2019ء کوبھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا یکطرفہ طور پر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حثیت ختم کرنا محض بھارتی مہم جوئی اور دیوانہ پن نہیں، بلکہ انتہا پسند ہندوئوں کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت انہوں نے پہلے مرحلے میں اس مسئلے پر چھایا طویل جمود توڑ ڈالا۔ ایسا کرتے ہوئے وہ حسب روایت نہ کشمیریوں کی رائے خاطر میں لائے، نہ ان آئینی ضمانتوں کی پروا کی کہ جن کے تحت نام کی ہی سہی کشمیر کو تھوڑی بہت خودمختاری حاصل تھی، نہ پاکستان کے ساتھ ہونے والے دوطرفہ معاہدوں کے بارے میں سوچا اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کا پاس کیا۔ پاکستان بیشک بین الاقوامی اصولوں، اخلاقیات، دوطرفہ معاہدوں اور قراردادوں کا حوالہ دیتا رہے لیکن بھارت نے وہی کیا جوہٹ دھرم ریاستیں تاریخ میں کرتی آئیں ہیں ۔ طاقت کا استعمال، یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ دیکھا جائے تو بھارتی قیادت اپنے تئیں مسئلہ کشمیر کو نئی دہلی کے حق میں حل کرچکی اور اب سوال اس فیصلے کے اثرات اور ردعمل کو سنبھالنے کا ہے جس کے لیے وہ پہلودار حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ مودی نے کشمیر میں جوا کشمیریوں، پاکستان اور دنیا کے ممکنہ ردعمل کو تصور میں رکھ کر کھیلا ہے۔ کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کچلنے کے لیے بھارت ایک طرف بدترین ریاستی دہشت گردی، جبر، تشدد اور انسانی حقوق کی پامالی کا سہارا لے رہا ہے تو دوسری طرف نئے متنازعہ شہری قانون کے تحت ان تمام بھارتی شہریوں کو کشمیر میں مستقل سکونت اور ڈومیسائل کے حقوق دیئے جارہے ہیں جو اس مسلم اکثریتی علاقے میں 15 برس سے قیام پذیر ہیں، یا سات برس تعلیم حاصل کرتے ہوئے دسویں اور بارہویں جماعت کا امتحان دے چکے۔ یہی نہیں، سرمایہ کاری کے نام پر بھارت دھڑلے سے کشمیر کی زمین نجی و سرکاری کمپنیوں کو ہوٹل، تفریح گاہیں اور دیگر تعمیرات بنانے کے لیے طویل لیز پر دے رہا ہے۔ ہندو انتہا پسند حکومت اس بات کے لیے بھی کوشاں ہے کہ حریت کے ہی نہیں بلکہ بھارت نواز کشمیری قیادت، جو کبھی علامتی خودمختاری پر مطمئن تھی، ان سے بھی چھٹکارا حاصل کرکے اپنے گماشتوں پر مبنی نئی کھیپ تیار کرے جو کشمیر میں ہر معاملے پر صرف اسی کے اشارے پر ناچے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے صرف دھونس، دھمکی، تشدد کا استعمال ہی نہیں ہورہا بلکہ ضمیر کی سودا بازی کے لیے پیسہ بھی بے دریغ بہایا جارہا ہے۔ قصہ مختصر، کشمیر کو ہڑپ کرنے اور وہاں جاری تحریک آزادی کو بزور قوت اور مکاری ختم کرنے کا بھارتی منصوبے پرعمل پوری رفتار سے جاری ہے۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس نے گزشتہ نو ماہ میں یعنی 5 اگست کے بعد ، بھارت کی فیصلہ کن غیرروایتی حکمت عملی کا جواب روایتی سفارتکاری سے دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کوششوں سے یقیناً مسئلہ کشمیر کئی بین الاقوامی پلیٹ فارمز بشمول اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اجاگر تو ہوا، لیکن نئی دہلی کی توقعات کے مطابق عالمی طاقتوں نے بھارت پر کسی قسم کا دباو ڈالنے گریز کیا، حتیٰ کے بہت سے مسلم ممالک کا رویہ بھی حوصلہ شکن رہا۔ بھارت نے امریکہ میں 11 ستمبر2001 ء کو ہونے والے حملوں کا بھی فائدہ اٹھایا اور کشمیری تحریک آزادی کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی۔ بھارت کے امریکہ سے بڑھتے ہوئے قریبی تعلقات اور ہمارے حکمرانوں کا اس معاملے پر معذرت خواہانہ رویے کی بدولت آج نوبت یہ آگئی ہے پاکستان نے بظاہر مقبوضہ کشمیر میں امن کی ذمہ داری بھی اپنے کندھوں پر لے لی ہے۔ حالانکہ آزاد کشمیر کے باسی بیرونی قابض فوج کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں اپنے بھائی بہنوں کی مدد اور مسلح جدوجہد کرنے کا حق بین الاقوامی قوانین کے تحت رکھتے ہیں۔ لیکن ہمارا زور اس بات پر ہے کہ بڑی طاقتیں پاک بھارت مذاکرات کی راہ نکالیں اور مسئلے کو حل کروائیں۔ لیکن اگر تقاریر، قرارداوں، پرامن احتجاج یا پھر اقوام متحدہ کے در پر جانے سے کشمیر آزاد ہوسکتا تو نہ جانے کب کا ہوچکا ہوتا۔ مودی کے 5 اگست اور بعد کے اقدامات کے ردعمل میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی روایاتی سفارتکاری اب ناکافی ہے۔ ہندو انتہا پسندوں نے کشمیر پر فیصلہ کن چڑھائی کردی ہے اور مستقبل کی سودا بازی کے لیے وہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھی نظریں گاڑے بیٹھے ہیں۔ ایسے نازک وقت میں پاکستانی قیادت کو بھی جنگی بنیادوں پر بھارتی جارحیت اور ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے غیرروایتی حکمت عملی اپنانا ہوگی اور دشمن کی توقعات کے برعکس جانا ہوگا۔ ہماری قیادت کی یہی کڑی آزمائش ہے کہ کیا وہ بھارتی جارحیت اور مہم جوئی کا جواب ایسے اقدامات سے دینے کی اہلیت رکھتی ہے کہ جس کی تیز آنچ بھارت محسوس کرسکے؟ فی الوقت پاکستانی قیادت ملک کے اندرونی معاشی اور سیاسی مسائل میں گھری دکھائی دے رہی ہے جس کا بھارت نے فائدہ اٹھایا ہے۔ یقینا پاکستان کے داخلی چیلنج بڑے ہیں لیکن ان کے حل کے انتظار میں کشمیر کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔ کسی بھی ریاست میں بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنے کی صلاحیت ہونی چاہیے، جو پاکستان میں ہے ۔سوال سیاسی قوت ارادی اور جْرأت کا ہے۔