مکرمی ! حالات و معاملات سے لاتعلق ہونا قومی جرم میں حصہ دار بننے کے مترادف ٹھہرتا ہے۔لیلیٰ اقتدار میں جانے کیا اثر ہے کہ جس کے بھی ہاتھ آتی ہے پہلے ہی وار میں اْس سے انسانی سوچ چھین لیتی ہے اور پھر چل سو چل۔آج بھلا کون ہے جو اس امر کو جھٹلائے کہ آج ملک کا ہر ہر عام فرد ناجائز منافع خوروں کے شکنجے میں کسا ہوا بلبلا ،دہائیاں دے رہا ہے،مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔غریب کے بچے کم خوراکی کے باعث مر جائیں تو حکمرانوں کی بلا سے اور اگر بیمار پڑ جانے کی وجہ سے ادویات لینے نکلیں مگر دوا کی یومیہ بنیادوں پر بڑھتی قیمتیں اْنہیں میڈیکل سٹور سے خالی ہاتھ لوٹنے پر مجبور کر رہی ہیں تو بھی بھلا اس سے کیا غرض؟ سفینہء اقتدار کے ملاح اور سواروں کو تو کہیں مہنگائی اور غربت نظر نہیں آتی تبھی تو مہنگائی کی شرح اور اشیاء کی قیمتوں کا موازنہ اپنے سے زیادہ فی کس آمدنی اور اپنے سے مضبوط معیشت رکھنے والے ممالک سے کیا جاتا ہے۔مافیاز ایسی حکومت سے بھلا کیوں خوف کھائیں جو خود مختلف حربوں اور ہتھکنڈوں سے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے میں سابقین کو بھی پیچھے چھوڑ چکی ہے۔بجلی کے میٹروں کی بنارسی ریڈنگ کے ذریعے جیب تراشی سے بھی جی نہیں بھرتا تو کبھی کبھار پٹرول کی قیمت میں چند پیسے کی کمی کر کے عوام دوستی کا ثبوت پیش میں ایک عدد قصیدہ جھاڑ دینے والے یکمشت پٹرول کی قیمت میں پانچ روپے فی لٹر اضافہ کر کے بھی عوام پر ھتھ ہولا رکھنے کا احسان جتلاتے اور وہاں مزید مہنگائی پر قابو پانے کا مضحکہ خیز دعوٰی بھی کرتے ہیں جہاں ایک روپیہ فی لٹر قیمت بڑھنے پر ٹرانسپورٹر ہی دس روپیہ فی سواری تک کرایہ نہیں بڑھاتا بلکہ سائیکل پر پالک بیچنے والے تک پانچ روپے فی کلو قیمت بڑھا دیتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔یہاں کے ناجائز منافع خور تاجر طبقے میں الا ماشاء اللہ ایسے بھی بہت جو افریقہ کے صحرائی ملک میں ہو جانے والی بارش کو بھی قیمت میں اضافے کا جواز بنا لیتے ہیں تو پٹرول کی قیمت میں پانچ روپے فی لیٹر کا اضافہ تو اْن کیلئے نعمتٍ کیوں نہ ہوگی؟اس تمام صورتحال میں بھی حکومت ہے کہ عوام کے صبر کا ایک کے بعد ایک امتحان لینے پر تْلی ہے ۔ (جاوید ذوالفقار‘فیصل آباد )