مکرمی! کشمیر اور جموں کے علاقوں میں معمولاتِ زندگی مفلوج ہوئے 18 ماہ گزر چکے ہیں۔ بھارت کے ناجائز قبضے والے کشمیر کے مذکورہ علاقوں میں بھارتی فوج کی بھاری نفری تعینات اور دفعہ 144 کے تحت نقل و حرکت پر سخت پابندیاں بھی نافذ ہیں۔ایسے میں انسانی حقوق کی پاسداری کی نام نہاد تنظیموں کی خاموشی ان مظلوم کشمیریوں کیلئے باعث حیرت ہے جہاں بھارت اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی خاطر انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ جس ملک کے فوج کے سابق سربراہ اعلانیہ طور پر کشمیری خواتین کے ریپ کی ترغیب دے رہے ہوں تو وہاں ان درندہ صفت فوجیوں سے خواتین کے تحفظ اور انسانی حقوق کی پاسداری کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے؟ بھارتی فوج کی ہٹ دھرمی اور بے حسی کا اس امرسے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معروف اسکالر شبھ متھور نے عصمت دری کو کشمیر میں بھارتی فوجی حکمت عملی کا لازمی عنصر قرار دے دیا ہے۔ ایک اور معروف استاد و سکالر سیما قاضی کا کہنا ہے کہ عصمت دری کا استعمال کشمیریوں کے خلاف مزاحمت کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے کیا جاتا ہے اور فوجیوں کے اعتراف کے ایسے دستاویزی ثبوت بھی سامنے آئے ہیں جن میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ انہیں کشمیری خواتین سے زیادتی کا حکم دیا گیا تھا۔ پروفیسر ولیم بیکر نے گواہی دی کہ کشمیر میں عصمت دری محض غیر طے شدہ فوجیوں پر مشتمل الگ تھلگ واقعات کا معاملہ نہیں، بلکہ سکیورٹی فورسز کشمیری آبادی پر عصمت دری کو خوفناک اورسرگرم انداز میں ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ (شہزاد احمد، ملتان)