آگ جب بھڑکتی ہے فرق یہ نہیں کرتی اپنے ہوں یا بیگانے سب کو راکھ کرتی ہے ہندوستان میں حالات انتہائی تیزی کے ساتھ اور منفی رخ میں بگڑتے اور بدلتے جا رہے ہیں۔ چند جنونی تنظیموںاور شدت پسند سیاسی جماعتوں کی نفرت پر مبنی سیاست نے ہندوستان کے انتہائی پرسکون اور گنگا جمنی تہذیب والے معاشرہ میں زہر گھول دیا ہے اور آج عام آدمی کے ذہن میں بھی ہندو۔ مسلم کے نام پر نفرت پیدا ہوگئی ہے۔ یہ انتہائی تشویشناک رجحان ہے۔ آج محض اس وجہ سے کوئی اپنا آرڈر کیا ہوا ڈنر حاصل نہیںکرتا کہ یہ پہنچانے والا شخص مسلمان ہے۔ کوئی محض اس وجہ سے ٹیکسی میں بیٹھنے سے گریز کرتا ہے کہ اس کا ڈرائیور مسلمان ہے۔ یہ صورتحال محض چند برس پہلے تک ناقابل قیاس تھی۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہندوستان میں یکجہتی اور سماجی ہم آہنگی کی روایات انتہائی مستحکم ہیں اور ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت تھی کہ ہندوؤں کے تہوار مسلمانوں کے بغیر اور مسلمانوں کے تہوار ہندوؤں کی شراکت کے بغیر ادھورے ہوتے ہیں۔ آج بھی کئی عید اور تہوار ایسے ہوتے ہیں جن میں راست یا بالواسطہ طور پر ایک دوسرے کے مذہب کے لوگ کسی نہ کسی انداز میں اپنی حصہ داری نبھاتے ہیں۔ تاہم کچھ سیاسی جماعتوں نے محض اپنے اقتدار کے لالچ میںاور اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے کچھ جنونی تنظیموں نے ملک کے ماحول کو اس حد تک پراگندہ کردیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو شک کی نظر سے ہی نہیں دیکھنے لگے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے باہم تعلقات اتفاقی طور پر رکھنے میں بھی عار محسوس کرنے لگے ہیں۔ کل ایک خانگی غذا پہنچانے والی کمپنی کے ایگزیکٹیو کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے اور یہ ہندوستان کی دیرینہ اور قدیم روایات سے یکسر مختلف ہے۔ یہ ہندوستان کی روایت کبھی نہیںرہی کہ ایک دوسرے کے درمیان محض مذہب کی بنیاد پر تفرفہ کیا جائے۔ یہ چھوت چھات کی لعنت جو کبھی ہندوستان میں تھی کہ کسی دلت کے ہاتھ کا پانی نہیں پیا جاتا تھا اور دلتوں کو مندروں میں داخلہ نہیں دیا جاتا تھا۔ کوئی دلت کسی اعلی ذات والے کے گھر آجاتا تو وہ پورے کا پورا گھر از سر نو پاک کرنے کی کوشش کرتا اور یہی حال مندروں کا بھی رہا تھا۔ ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد ‘ بے شمار قربانیوں کے ذریعہ اس لعنت کا خاتمہ کیا گیا۔حالانکہ آج بھی یہ لعنت ہمارے سماج کا حصہ ہے لیکن کچھ حد تک اس میں کمی ضرور آئی ہے لیکن ایک نئی لعنت شروع کردی گئی ہے کہ ہندواگر کوئی ہے تو وہ مسلمان سے دوری اختیار کرنے لگا ہے اور اگر ایسا ہی مسلمان بھی کرنے لگیں تو پھر ملک کی صورتحال انتہائی تشویشناک بن جائے گی۔ یہ ناسور ہے اور اس کو پھیلنے سے روکنا ہے تو اس کے سدباب کیلئے فوری اور موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے فائدہ کیلئے فرقہ پرستی اور تفرقہ کا زہرگھولا جاتا ہے۔ جنونی طبیعت کی حامل تنظیموں کی جانب سے ہذیان کی کیفیت پیدا کی جا رہی ہے۔ کچھ بیمار ذہن ضرور اس کا اثر قبول کر رہے ہیں اور اس لعنت کو ملک بھر میں پھیلتے شائد دیر نہیں لگے گی۔ اس سے پہلے کہ یہ لعنت مزید سرعت کے ساتھ پھیلنا شروع ہوجائے اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے نمٹنے کیلئے فوری اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ اس طرح کی ذہنیت کو ختم کرنے کیلئے سماج میں خود اپنے طور پر مہم چلائی جانی چاہئے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہندو کی مدد کے بغیر مسلمان اور مسلمان کے رول کے بغیر ہندو کی زندگی اس ملک میں ممکن نہیں ہے۔ اس حقیقت کو سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری عیدیں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ہمارے تہوار ایک دوسرے کے بغیر پورے نہیں ہوسکتے تو ایسے میں جو زہر سماج میں اور عام لوگوں کے ذہن میں گھولا جا رہا ہے اس کو تیزی سے پھیلنے سے روکنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ ہر متفکر اور ذمہ دار ہندوستانی کو اس لعنت کے خاتمہ اور سدباب کیلئے اپنے طور پر کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتوں کواس تعلق سے منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ سیاسی جماعتوں اور تنظیموںکو بھی منافرت اور تفرقہ کی سیاست کو ترک کرنا ہوگا۔ اگرا یسا نہیں کیا گیا تو یہ لعنت اور زہر سارے ہندوستان میں پھیلنے کے اندیشوں کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری طرف سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ اعظم خان ان دنوں بی جے پی کے نشانہ پر ہیں۔ مرکز کی نریندر مودی حکومت اور یو پی کی آدتیہ ناتھ کی حکومت اعظم خان کو حاشیہ پر لانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ کوئی کسر باقی رکھے بغیر مسلسل ان کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اور اس کی حکومتیں رامپور لوک سبھا حلقہ سے اعظم خان کی کامیابی کو اب تک قبول نہیں کرپائی ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے خلاف نت نئے انداز سے مقدمات کا اندراج کیا جا رہاہے۔ انہیں لینڈ مافیا قرار دیدیا گیا ہے۔ ایک ماہ میں ان کے خلاف 27 ایف آئی آر درج کئے گئے ہیں۔ ان کی یونیورسٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یونیورسٹی کی لائبریری پر چھاپہ مارا گیا اور وہاں سے نادر کتب وغیرہ کو ضبط کیا گیا ہے۔ جہاں کچھ مقدمات سیاسی نوعیت کے ہوں اور تعلیمی ادارہ کے قیام کی جدوجہد کی گئی ہو وہاں حکومتیں ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جاتی ہیں جس سے حکومت کے ارادوں اور نیتوں کے تعلق سے شکوک و شبہات پیدا ہوجاتے ہیں۔یہی کچھ مودی حکومت کشمیر میںکرنے جا رہی ہے۔مودی کا نشانہ صرف مسلمان ہیں۔مودی نے خطے کو آگ پر لاکھڑا کیا ہے جس کے شعلے پورے برصغیر کو راکھ کر دیں گے۔اس لیے ہندوستان کے توازن پسند حلقوں کو مودی کی چالوں سے خبردار رہتے ہوئے فوری اقدامات کرنے چاہئیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے۔(بشکریہ ،سیاست دہلی)