ریلوے نے ٹکٹ کاونٹر کھول دیئے ہیں۔ دارالحکومت دہلی میں ٹکٹ کاونٹر تک پہنچنے سے پہلے گیٹ پر پہلے کی طرح ہجوم دیکھا گیا۔ کاونٹر پر گول دائرے بنے ہیں لیکن گیٹ کے باہر وہی لوگ ایک دوسرے سے متصل کھڑے ہیں راشن کی دکاناوالا اپنی دکان کے باہر گول دائرہ بناکر جسمانی دوری کو یقینی بنارہا ہے۔ مگر ریلوے کاونٹر پر پہنچنے سے پہلے ہی جسمانی دوری کی دھجیاں اڑنے لگیں۔ اسی طرح کا تال میل ریلوے نے یکم مئی کو کیا۔ اچانک اعلان کردیا کہ شرامیک خصوصی ٹرینیں چلیں گی ایسے وقت میں اچانک اعلان کرنے کی اس بیماری نے حالات کو دھماکو بنا دیا ہے۔ مزدوروں پر ناموں کے اندراج کا ایک نیا نظام نافذ کردیا گئی وہ پہلے کبھی پولیس اسٹیشن کے باہر تو کبھی اسکریننگ کے نام پر کھولے گئے سنٹروں کے باہر جمع ہونے کے لئے مجبور ہوا۔ ان جگہوں میں بھی خانہ پری کی جارہی تھی۔ ان مراکز میں جسمانی دوری کی دھجیاں اڑنے لگیں۔ اس کے بعد ریلوے اسٹیشن کے باہر کا حال آپ تک پہنچ ہی گیا ہوگا۔ یکم مئی سے شرامیک ٹرین چلانے کے وقت ریلوے نے کہا کہ ایک بوگی میں گنجائش سے 25 فیصد مسافرین کم ہوں گے۔ ایک بوگی میں 72 یاتری آتے ہیں تو 54 سفر کریں گے۔ 1200 لوگ ہی ٹرین میں سفر کریں گے۔ 12 مئی کو کہا کہ میڈل برتھ خالی نہیں رہے گی۔ ہر نشست پر مسافرین ہوں گے یکم مئی اور 12 مئی کے ان فیصلوں کی سائنٹفک بنیاد کیا تھی کیا ہندوستان نے اس بات کو تلاش کرلیا ہیکہ کووڈ۔ 19 کا انفکشن ایک دوسرے کے رابطہ میں آنے سے نہیں ہوتا ہے تو پھر ایک دوسرے سے دور رہنے کا منصوبہ ہندوستان میں کس سائنٹفک انفارمیشن کی بنیاد پر اپنایا گیا تھا۔ہم نہیں جانتے ہیں کہ وزیر ریلوے نے مڈل برتھ خالی رکھنے کا فیصلہ کیا تب کیا سوچا اور اندرون ہفتہ مڈل برتھ بھر دینے کا فیصلہ کیا تب کیا سوچا؟ ایک مضحکہ خیز فیصلہ اور ہے۔ مسافرین ایک گیٹ سے چڑھیں گے اور دوسرے سے اتریں گے۔ ذرا سا دماغ لگائیں گے اس سے کیا ہو جائے گا یاتری تو ہر نشست پر بیٹھے ہی ملیں گے۔ انہیں آخر میں برتھ کے پاس پہنچ کر ایک دوسرے سے ملنا ہی ہے جب یہ کرنا تھا تو پھر لاک ڈاون کے وقت ریل گاڑیاں بند کیوں ہوئیں۔ اس وقت تک تو انفیکشن بڑے پیمانے پر نہیں پھیلا تھا تب ہی ایک تہائی سیٹوں پر سفر جاری رہ سکتا تھا جسے جہاں پہنچنا ہوتا پہنچ جاتا۔ کم لوگوں کی اسکریننگ ہوتی اور کورنٹائن ہوتا۔لاک ڈاون کے بعد چیف منسٹر مہاراشٹرا نے ٹرینیں چلانے کی بات کی تھی لیکن منع کردیا تو ریلوے بتائے کہ ایک مہینہ بعد اسے کس بنیاد پر یہ معلوم ہوا کہ شرامیک خصوصی ٹرینیں چلائی جانی چاہئے۔جب چلاہی رہے تھے تب سارے مزدوروں کا ٹسٹ کرتے جو نگیٹیو آتے ان ہی کو بھیجتے لیکن ایسا نہیں کیا۔ لاک ڈاون کے دو ماہ گذرجانے کے بعد بھی ہندوستان یہ صلاحیت حاصل نہیں کرسکا اگر حکومت ہی سماجی دوری قربان کررہی ہے تب ریڈزون سے لیکر گرین زون بنانے کا کیا فائدہ۔ظاہر ہے ریلوے الجھن کا شکار رہی یہ اس حکومت کا حال ہے جس کی بنیاد مضبوط قیادت کے پروپگنڈہ اور سخت فیصلوں پر ٹکی ہے۔ اسی سخت فیصلے کے پاگل پن نے نوٹ بندی کی واواہی کرائی تھی۔ اس بات کے باوجود کہ معیشت تباہ ہوگئی۔ لوگوں کی اقتصادی زندگی 5 سال پیچھے چلی گئی۔ اب لاک ڈاون کے بعد دس سے پیچھے چلی گئی۔ متوسط طبقہ کو تالی بجانے کے اور موقع ملیں گے۔ اب ایک بنیادی سوال پر آتے ہیں لاک ڈاون کے ساتھ ریل کی طرح فضائی پروازوں کو روکنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا۔ اس سے پہلے کیا تیاری کی گئی۔ ٹھیک ہے کہ دنیا بھر میں کئی جگہوں پر پروازیں معطل ہو رہی تھیں لیکن دنیا کے کئی ملکوں سے آنے والے مسافرین کی چیکنگ کے نظام کو فوری نافذ کرنے میں کامیاب ہوا اور ان کا ملک تباہی سے بچ گیا۔ ہم کیوں نہیں کرسکے پھر بھی مان لیتے ہیں کہ پروازیں بند ہوئیں کیونکہ طیارہ کے اندر سماجی دوری کے اصول کی پاسداری نہیں ہوسکتی تھی۔ ہر نشست پر لوگ بیٹھے ہوئے ہیں لیکن اب وزیر شہری ہوابازی پردیپ پوری کہتے ہیں کہ درمیانی نشست خالی نہیں رہے گی کیونکہ خالی رہنے کے بعد بھی جسمانی دوری کی پاسداری نہیں ہوتی ہے۔ دو نشستوں کے درمیان کا فاصلہ بہت کم ہے تو جسمانی دوری کی پاسداری نہیں ہوسکے گی تو کیا آپ اس زندگی بچانے والے اصول کو ہی چھوڑ دیں گئے۔۔ اس دورانکی کوئی نئی ٹکنیک یا کمیکل بھی متعارف نہیں کروایا گیا تھا دنیا میں جو ہے وہ پہلے سے تھا یہاں یاد دلاوں کے عالمی ادارہ صحت نے لاک ڈاون کا مشورہ نہیں دیا تھا۔ کہا تھا کہ یہ وقت سائنٹفک بنیادوں پر حقائق اور دلائل کی بنیاد پر فیصلہ لینے کا ہے۔ انڈین ایکسپریس کے پرانومکل انیل ساسی کی رپورٹ پتہ دیتی ہیکہ وزارت شہری ہوابازی نے اچانک طیاروں کے پرواز کا فیصلہ کیوں کیا۔17 مئی کو وزارت داخلہ احکامات جاری کرتا ہے کہ 30 مئی تک ملک میں گھریلو پروازیں بند رہیں گی۔ ریل نہیں چلے گی، طیارے پرواز نہیں بھریں گے۔ تین دن بعد 20 مئی کو وزیر شہری ہوابازی کہتے ہیں کہ 25 مئی سے پروازیں شروع ہوں گی۔آخر وزارت داخلہ نے کن سانٹفک حقائق کی بنیاد پر حکم جاری کیا کہ 30 مئی تک پروازیں نہیں چلیں گی۔ پھر تین دن کے اندر اسے کون سے نئے حقائق مل گئے جس کی بنیاد پر فیصلہ ہوا کہ 5 دن کے اندر ہی پروازیں چلیں گی۔انٹرنیشنل ایر ٹرانسپورٹ اسوسی ایشن نے کہا کہ 30 لاکھ سے زائد نوکریاں داو پر تھیں۔ 25 مارچ سے ان کی آمدنی صفر ہوچکی ہے۔ ویسے بھی ان 30 لاکھ لوگوں کو پہلے سے کم تنخواہ پر اور زیادہ کام کرنا ہوگا ابھی بھی بڑی تعداد میں لوگوں کی نوکریاں جائیں گی۔ اس میں ہمارے ہی مڈل کلاس کے لوگ ہوں گے جو تالی بجا رہے تھے بجائے اس کے لاک ڈاون کو لیکر سوال کرتے اور حکومت کے منصوبوں کو ٹھیک سے سمجھنے کی کوشش کرتے۔ ایسا نہیں ہیکہ میڈیا میں نوکریاں نہیں گئیں ہیں بہت سے لوگوں کی گئی ہیں۔ تنخواہ بھی کم ہوئی ہے۔ ہر شعبہ میں کام کرنے والا معاشی طور پر دس سال پیچھے چلا گیا ہے۔ایک بار پھر سے الزام نقل مکانی کرنے والوں پر ڈالنے کی تیاری ہوچکی ہے جس طرح سے ابتداء میں تبلیغی جماعت کے سہارے عوام کے ایک بڑے حصہ میں یہ دلیل پھیلا دی گئی کہ مسلمانوں کی وجہ سے یہ وبا پھیلی ہے۔ (بشکریہ روزنامہ سیاست بھارت )